پارلیمنٹ این آر او کو مسترد کردے

این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا ہے اور قواعد کے مطابق اس کو ایک کمیٹی کے حوالے کردیا گیا جس نے اکثریت رائے سے اس کی منظوری دے دی ہے،یقینی طور پر مقصد اس کالے قانون کو پارلیمنٹ سے پاس کرانا ہے۔ آئیے سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ یہ آرڈیننس کیونکر معرض وجود میں آیا۔ تو عرض یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف مالی بد عنوانیوں کے مقدمے درج تھے۔ آپ ان سے چھٹکارا حاصل کرناچاہتی تھیں۔ یہی مقدمے آپ کی انتخابات میں حصہ لینے کے سلسلے میں نا اہلی کا سبب بھی تھے۔ ان سے نجات ملنے کی صورت میں وہ رکاوٹ بھی دور ہوسکتی تھی اور آپ منتخب ہو کر وزیراعظم بھی بن سکتی تھی۔ اُدھر جنرل مشرف کی خواہش تھی کہ چوٹی کے سیاست دانوں میں سے کسی ایک کا تعاون حاصل ہو جائے تاکہ وہ پانچ سال صدر کے عہدہ پر براجمان رہنے کے سلسلے میں مدد معاون ثابت ہو۔ اس کے علاوہ امریکہ کی خواہش تھی کہ اُن کا ہر حکم بجا لانے والا شخص صدارت کے عہدہ پر فائز رہے۔ گو یا تینوں فریقین کیلئے اس ’ڈیل‘ میں کچھ نہ کچھ موجود تھا۔ اگر کسی فریق کیلئے کچھ نہ تھا تو وہ تھے پاکستان کے عوام۔ اگر ان کیلئے بھی کچھ ہوتا تو معاملہ کو سات سال تک عوام سے خفیہ رکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ بینظیر بھٹو کو معافی دینے کیلئے مشرف نے پاکستان کے سینکڑوں، مگر مچھوں، قاتلوں، لٹیروں کو بیک جنبشِ قلم معاف کر دیا۔ جب دبئی میں دونوں کی ملاقات طشت ازبام ہوئی تو یہ ظاہر تھا کہ ملک و قوم کو اس ڈیل کی بہت بھیانک قیمت ادا کرنا پڑیگی، اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بینظیربھٹو کی ہلاکت کے بارے میں بہتوں کا خیال ہے کہ وہ وطن واپسی کے بعد اس ڈیل سے دوری اختیاری کر رہی تھیں۔ اور ان کو راستہ سے ہٹانا ضروری ہوگیا تھا ۔اُن کی وفات کے بعد ایک وصّیت نامہ سامنے آیا، جس کے بارے میں لوگوں کو بہت تحفظات ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ آخر کار نہ تو مشرف صدر رہ سکے، نہ بینظیر وزیراعظم بن سکیں البتہ کسی اور نے فائدہ اٹھا لیا۔ راقم الحروف کی ناقص رائے میں اگر مالی بد عنوانی کے مقدمات کا طوق بینظیر کی گردن پر نہ پڑا ہو تا، تو بینظیر کو نہ تو’ ڈیل‘ کی ضرورت ہوتی اور نہ ہی اس سے انحراف کرنے کی، اور وہ آج بھی زندہ ہوتیں۔
حکومت این آر او کو پارلیمنٹ سے پاس کرانے پر تُلی ہوئی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق حکمران پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کو ملک سے باہر جانے کی ممانعت کر دی گئی ہے۔ کئی ایک ایم این اے صاحبان جن میں حکمران جماعت کے ممبران کی تعداد زیادہ ہے، این آر او کا فائدہ اٹھا چُکے ہیں ۔ لیکن یاد رہے کہ ایم این اے صاحبان کی اکثریت نے این آر او کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ اُن سب پر اُن کی قوم کا کچھ حق ہے۔ اگر وہ این آر او کو قانون کا حصہ بنا دیتے ہیں تو ایک انتہائی غلط رسم پڑے گی۔ یعنی مطلب یہ ہوگا کہ اگر آپ بڑے سیاست دان ہیں تو آپ قتل بھی کریں گے تو کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا، البتہ اگر آپ ایک عام آدمی ہیں، تو آپ ایک چھوٹے سے جُرم کے لئے بھی جیل میں گلتے سڑتے رہیں گے۔ نہ صرف ایم این اے صاحبان بلکہ اُن کی سیاسی جماعتوں پر بھی یہ تہمت لگے گی کہ انھوں نے عوام کے خلاف سیاسی ٹھگوں کا ساتھ دیا۔ ہمارے ممبران اسمبلی کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ لوگ عظیم قومی مفادات پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ موقع ایسا ہے جس میں وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ایسی بات نہیں ہے۔ ممبران قومی اسمبلی پر لازم ہے کہ وہ این آر او کو یکسر مسترد کر یں۔ تاکہ عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس حاصل کر سکیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں چاہئے کہ جیلوںسے تمام قیدی رہا کر دیں اور جیل بند کر دیں۔ عوام این آر او کے سخت مخالف ہیں اور وہ اس لئے کہ یہ نام نہاد قانون انسانوں میں تفریق کرتا ہے۔ اگر یہ این آر او کو ختم نہیں کرتے تو ہوسکتا ہے کہ اگلے انتخابات میں عوام ان کوووٹ نہ دیں۔ بلکہ انتخابات تو دُور کی بات ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ یہ این آر او کو قانون بنا کر اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں جائیں تو عوام ان کا کالی جھنڈیوں سے استقبال کریں۔اگر وسائل کم ہوں اورعوام تک نہ پہنچ پائیں تو شائد عوام اپنے نمائندوں کو معاف کر دیں۔ لیکن اگر نمائندوں کے اختیار میں ہو کہ وہ اس کالے قانون کو کالعدم قرار دے دیں ،اور وہ ایسا نہ کریں، تو شائد عوام درگذر کرنے پرآمادہ نہ ہوں۔ عوام کو چاہئے کہ اپنے نمائندوں کے پاس وفود کی صورت میں جائیں اوراُن سے یہ پوچھیں کہ اگر این آر او اتنا ہی اچھا آرڈیننس تھا تو پھر اس کو زندگی عطا کرنے والی ’ ڈیل‘ کو سات سال تک خفیہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟
اگر پارلیمنٹ این آر او کو بطور قانون نافذ کر بھی دے، تو سپریم کورٹ اس کو اس بنا پر کالعدم قرار دے سکتی ہے کہ یہ آئین میں دی گئی مساوی حقوق کی شقوں کے برخلاف ہے۔ اُس صورت میں ممبران اسمبلی کو سوائے خفت کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ عوام یہ یاد رکھیں گے کہ:
یہ ناداں گِر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا

ای پیپر دی نیشن