ہیلری جی کی اداسی!

Nov 02, 2009

توفیق بٹ
امریکی وزیرخارجہ پاکستان کا دورہ مکمل کر کے واپس چلی گئیں۔ اس دورے کے کیا مقاصد تھے؟ ممکن ہے پاکستانی حکمران بھی اس سے آگاہ نہ ہوں اور عوام تو بالکل ہی نہیں ہوں گے۔ حیرت اس بات پر ہے امریکی وزیرخارجہ کا دورہ اتنا مختصر کیوں تھا؟ پاکستان میں جو پروٹوکول امریکیوں کو ملتا ہے اپنے ملک میں وہ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تو پاکستان سے ان کی واپسی یقیناً اداسی کا سبب ہی بنتی ہو گی۔ امریکی وزیر خارجہ کےلئے تو بہت ہی اداسی کا سبب بنی کہ ان کا دورہ اتنا کامیاب ہرگز نہیں ہوا جتنا وہ تاثر دیتی ہیں۔ بہتر تھا وہ حکمرانوں یعنی اپنے ”غلاموں“ کے درمیان ہی رہتیں۔ تب انہیں یہی تاثر ملتا پاکستانی عوام امریکیوں پر جان نچھاور کرتے ہیں اور امریکی امداد کو ”تبرک“ کے طور پر لیتے ہیں۔ ہلری کلنٹن جی نے پاکستانی میڈیا اور طلبہ کا سامنا کر کے اپنے لئے بھی مسائل پیدا کئے اور پاکستان میں موجود اپنے ان ”غلاموں“ کےلئے جو انہیں ”سب اچھا ہے“ کی رپورٹ دے کر اپنی نوکری پکی کرنے کے عمل کو اعزاز سمجھتے ہیں۔!
ویسے میں سوچتا ہوں جو پروٹوکول امریکی وزیر خارجہ کو پاکستان میں ملا پاکستانی وزیر خارجہ امریکہ میں اس کا تصور کر سکتے ہیں؟ وہاں تو ہمارے وزیروں شذیروں کی جوتیاں تک اتروا دی جاتی ہیں اور اگر پاکستانی حکمرانوں یعنی امریکی غلاموں کا ”انداز غلامی“ یہی رہا۔ تو ممکن ہے ایسا وقت بھی آ جائے جب وزیروں شذیروں کے کپڑے تک اتروا دیئے جائیں اور اس پر بھی وہ خوش ہوں کہ چلیں ”عزت“ بچ گئی کہیں امریکیوں نے واپسی کا را ستہ نہیں دکھا دیا۔ اب کون ڈاکٹر بابر اعوان کی طرح کا سرپھرا وزیر ہو جو اپنی توہین پر احتجاج کرے اور اس امریکی سفارتخانے میں منعقدہ تقریب میں شرکت کئے بغیر واپس چلا آئے جس میں شرکت کا وزیر شذیر خواب دیکھتے ہیں اور پھر اس کی تعبیر کےلئے ایسی ایسی شرمناک کوششیں کرتے ہیں کہ ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے!
اس بات پر بھی حیرت ہے چودھری شجاعت حسین، پرویز الٰہی اور مسلم لیگ ق کے دیگر رہنماﺅں نے امریکی سفارتخانے جا کر وزیر خارجہ سے ملاقات کرنے سے معذرت کیوں کر لی؟ اس کا مطلب ہے فی الحال ان کا اقتدار میں آنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ اب آپ پوچھیں گے ان کی تو پارلیمنٹ میں اکثریت ہی نہیں محض امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کر کے اقتدار میں کیسے آیا جا سکتا ہے؟ عرض ہے پاکستان میں اقتدار امریکیوں کی ”پوجا پاٹ“ کے بعد ہی ملتا ہے اور اگر کوئی ”پوجا پاٹ“ کے معیار پر پورا اتر آئے تو بذریعہ ”فرشتگان“ پارلیمنٹ میں اسے اکثریت دلوانا بھی مشکل کام نہیں ہوتا، اس مقصد کیلئے کسی کو مروایا بھی جا سکتا ہے۔ لہذا امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات سے انکار کر کے مسلم لیگ ق نے اپنے پاﺅں پر جو کلہاڑی ماری ہے اس کا زخم شاید کبھی نہ بھر سکے یا کم از کم اس وقت تک تو ہر گز بھر نہیں سکے گا جب تک دوبارہ کسی ”امریکی غلام“ کی سرپرستی حاصل نہیں کر لیتے!
پاکستان میں میڈیا اور طلبہ کے ساتھ ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ کو تندو تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی سوالات کا تو وہ جواب ہی نہیں دے پائیں، اس کے باوجود شرمندہ نہیں ہوئیں کہ امریکیوں کو شرمندہ ہونا کم ہی آتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے تو بالکل ہی نہیں آتا۔ وہ فرماتی ہیں” ماضی میں پاکستان کے حوالے سے امریکہ سے کچھ غلطیاں ہوئیں“ ۔ ان غلطیوں پر بھی وہ شرمندہ نہیں اور جب شرمندہ ہی نہیں معافی مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ویسے پاکستانی میڈیا اور طلبہ سے ملاقات کر کے ہلیری جی کو حیرت ضرور ہوئی ہو گی اس بات پر کہ جس قوم کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا تھا وہ مکمل طور پر سوئی ہوئی ہے اچانک جاگ کیسے گئی ہے تو ہلیری جی آپ کی اطلاع کےلئے عرض ہے یہ اس میڈیا کا کمال ہے جس کے بارے میں گذشتہ روز آپ کو بادل نخواستہ کہنا پڑا کہ ”پاکستانی میڈیا کی آزادی پر ہم بڑے خوش ہیں“۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے امریکی بار بار پاکستان کیوں آتے ہیں؟ ایک جاتا ہے تو دوسرا چلا آتا ہے، دوسرے کے بعد تیسرا پھر چوتھا ۔ ”دہشت گردی“ کی طرح ان کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ جتنی مداخلت وہ پاکستان کے معاملات میں کرتے ہیں کسی اور ملک کے معاملات میں کر سکتے ہیں؟ اتنی مداخلت تو وہ شاید اپنے ملک کے معاملات میں بھی نہیں کر سکتے ہوں گے کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان میں امریکہ ہی کی حکومت ہے، فرق صرف اتنا ہے پاکستان میں حکومت کے لئے وہ ان ”پاکستانی جرنیلوں اور سیاستدانوں“ کی خدمات حاصل کر لیتا ہے پاکستان کے ساتھ جن کا تعلق بس اتنا ہی ہوتا ہے کھاﺅ پیو موج اڑاﺅ اور بھاگ جاﺅ۔ کا ش پاکستان کے ”محب وطن سیاستدان اور جرنیل“ کچھ سبق اپنے ان ”امریکی آقاﺅں“ سے ہی حاصل کر لیں جو کم از کم اپنے ملک میں اجاڑا نہیں پھیرتے، نہ اقتدار ختم ہونے کے بعد وہاں سے فرار ہوتے ہیں مگر نہیں.... میرے خیال میں بھینسوں اور بھیڑیوں کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ جو خود ”بانسری“ بجانے میں مصروف ہوں عوام کی بین یا بین ان پر کہاں اثر کریں گے؟.... ہلیری جی نے اسلام آباد میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کچھ ارکان پارلیمنٹ سے بھی ملاقات کی سنا ہے ایک دو ارکان پارلیمنٹ نے”ڈرون حملوں“ کو جائز قرار دیا۔ امریکی وزیر خارجہ اس موقع پر یقیناً خوش ہوئی ہوں گی کہ پاکستان میں ”اگلی قیادت“ کے لئے کم از کم ایک دو ارکان پارلیمنٹ تو کھل کر سامنے آ گئے۔ ایک اور بات بھی ان کےلئے باعث اطمینان ہو گی کہ پاکستان میں ان کی پالیسیوں سے اتفاق کرنے والے بھی موجود ہیں ورنہ میڈیا اور طلبہ سے ملاقات کے بعد وہ اتنی مایوس تھیں جتنی مایوس ان دنوں ایران سے ہیں۔ سو پاکستان کے کچھ ”منتخب نمائندوں“ کا انہیں خصوصی طور پر شکرگزار ہونا چاہئے۔ جنہوں نے ان کی مایوسی کچھ کم کی۔
امریکی وزیر خارجہ نے جاتے جاتے فرمایا ”پاکستان اور امریکہ کو گلے شکوے دور کرکے فضا صاف کر لینی چاہئے“ ان کی خدمت میں عرض ہے یہ فضا امریکہ نے ہی گندی کی ہے جو اس وقت تک ہرگز صاف نہیں ہو سکتی جب تک امریکہ پاکستان میں مداخلت مکمل طور پر بند نہیں کرتا۔ پاکستانی عوام کو اپنے فیصلے خود کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ امریکہ جب تک پاکستان میں موجود اپنے غلاموں کے ذریعے پاکستانی عوام کا یہ حق چھینتا رہا فضا گندی ہوتی رہے گی۔ ابھی تو صرف بو پھیلی ہے بارود پھیلا تو کچھ نہیں بچے گا۔ اس سے پہلے کہ ”گرد آلود فضا“ بارود آلود ہو امریکہ کےلئے بہتر ہے راہ راست پر آ جائے۔ میرے خیال میں اب کے بار امریکی وزیر خارجہ پاکستان سے کوئی”اچھی خبر“ نہیں لے کر گئیں!
مزیدخبریں