31 اکتوبر غازی علم الدین شہید کا 83واں سالانہ یومِ شہادت تھا۔ غازی علم الدین کو 31 اکتوبر 1929ءکو میانوالی جیل میں پھانسی دی گئی تھی اور یوں وہ ایک گستاخِ رسول بدبخت و ملعون راج پال کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا پا کر شہادت کے بلند مقام پر فائز ہو گئے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ جس ناموس کی حفاظت سے قانون قاصر تھا اس ناموس رسالت کی حفاظت غازی علم الدین نے جان لے کر اور جان دے کر کی اور یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان کچھ بھی برداشت کر سکتا ہے لیکن حضور نبی کریمﷺ کی عزت و حرمت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا اور اس کے لئے وہ اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہا سکتا ہے۔
جب لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے گستاخِ رسول راج پال کو کسی قانونی سقم کو بنیاد بنا کر رہا کر دیا تو مسلمانوں میں ایک محشر برپا ہو گیا۔ لاہور میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود ایک جلسہ عام کیا گیا جس میں اس دور کے ایک بے مثال خطیب سید عطاءاللہ شاہ بخاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”آج آپ لوگ جناب فخر رسل محمد عربیﷺ کی عزت و ناموس کو برقرار رکھنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ آج جنس انسان کو عزت بخشنے والے کی عزت خطرے میں ہے۔ آج اس جلیل القدر ہستی کا ناموس معرض خطر میں ہے جس کی دی ہوئی عزت پر تمام موجودات کو ناز ہے۔
مسلمانوں تمہاری محبت کا یہ عالم ہے کہ عام حالتوں میں تم کٹ مرتے ہو لیکن تمہیں معلوم نہیں کہ آج گنبد خضریٰ میں رسول اللہ تڑپ رہے ہیں۔ آج خدیجہؓ اور عائشہؓ پریشان ہیں۔ بتاﺅ تمہارے دلوں میں امہات المومنین کی کوئی جگہ نہیں۔ اگر تم خدیجہؓ اور عائشہؓ کے ناموس کی خاطر جانیں دے دو تو اس سے بڑھ کر فخر کی اور کیا بات ہو سکتی ہے“۔ غازی علم الدین شہید نے یہ تقریر سنی تو عشق رسول کا ایک ایسا باب تحریر کر دیا جو قیامت تک عشاقِ رسول اور ناموس رسالت کی خاطر مر مٹنے والوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے کہا تھا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
غازی علم الدین شہید نے پھانسی کے تختہ پر چڑھ کر اس شعر کی صداقت کی گواہی دی۔ پروانہ شمع رسالت، عظیم عاشقِ رسول اور شہید ناموس رسالت غازی علم الدین کا مقام و منزلت اور عزت و اعزاز دیکھئے کہ ان کی تدفین سے پہلے مولانا ظفر علی خاں شہید کی قبر کا جائزہ لینے کے لئے خود قبر میں لیٹ گئے اور پھر غازی علم الدین کو لحد مبارک میں اپنے ہاتھ سے اتارنے والوں میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ علامہ اقبال کا یہ جملہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیا ہم عشقِ رسول کی باتیں ہی کرتے رہے اور ترکھانوں کا لڑکا غازی علم الدین ہم سے بازی لے گیا۔
میں اس کالم کے ذریعے اپنے قارئین کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ گستاخِ رسول راج پال کے قتل پر ہندوﺅں سے زیادہ قادیانیوں کو تکلیف پہنچی۔ قادیانی جماعت کے سربراہ میاں محمود کی تقریر قادیانیوں کے اپنے اخبار ”الفضل“ میں درج ذیل الفاظ میں شائع کی گئی۔ یہ خبر 19 اپریل 1929ءکے ”الفضل“ میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس خبیث الفطرت شخص مرزا محمود نے کیا کہا آپ بھی پڑھئے۔ ”انبیاءکی عزت کی حفاظت قانون شکنی کے ذریعے نہیں ہو سکتی۔ وہ نبی بھی کیسا نبی ہے جس کی عزت کو بچانے کے لئے خون سے ہاتھ رنگنے پڑیں۔ جس کے بچانے کے لئے اپنا دین تباہ کرنا پڑے۔ یہ سمجھنا کہ محمد رسول اللہ کی عزت کے لئے قتل کرنا جائز ہے، سخت نادانی ہے۔وہ لوگ جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جو ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے“
قارئین محترم! قادیانیوں کے اخبار میں شائع ہونے والا مندرجہ بالا بیان کسی ہندو، عیسائی یا یہودی لیڈر کا نہیں ہے۔ یہ بیان قادیانیوں کے دوسرے ”خلیفہ“ مرزا محمود کا ہے۔ ایک عاشقِ رسول اور مجاہد تحفظ ناموس رسالت غازی علم الدین نے جب ایک رسوائے زمانہ گساخِ رسول ہندو راج پال کو جہنم واصل کیا تو قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا محمود کی جسارت دیکھئے کہ وہ محمد رسولﷺ کی عزت کی خاطر قتل کرنے کو سخت نادانی قرار دے رہا ہے۔ مرزا محمود قادیانی کی یہ خرافات بھی ملاحظہ ہو کہ ”وہ نبی بھی کیسا نبی ہے جس کی عزت کو بچانے کے لئے خون سے ہاتھ رنگنا پڑیں“
مرزا محمود قادیانی کی ان خرافات سے غازی علم الدین شہید کی عظمت و شان میں تو کوئی کمی واقع نہیں ہو سکتی لیکن یہ حقیقت کھل کر ضرور سامنے آ گئی ہے کہ ناموس رسالت کے خلاف قادیانیوں کی شرانگیزیاں ایک ہندو گستاخ رسول سے بھی کہیں بڑھ کر ہیں۔ قوم و وطن کی خاطر شہید ہونے والوں کے احترام کی کوئی حد نہیں۔ ایسے لوگ اپنی پوری قوم کی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں اور غازی علم الدین تو وہ تھے جنہوں نے عشق رسالت کی خاطر جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ اگر کوئی مردود و ملعون شخص غازی علم الدین کے اس عمل کی مذمت کرتا ہے تو وہ دراصل رسولِ پاک کی توہین کرتا ہے۔ محمد رسول اللہ کی عزت و ناموس کی خاطر قتل کرنا نادانی نہیں بلکہ جو شخص اسے نادانی قرار دینے کی جسارت کرتا ہے اس کے بدبخت اور جہنمی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمدﷺ کی حرمت پر اپنی جان نچھاور کرنے والے غازی علم الدین کو مجرم کہنے والا گروہ دنیا میں بھی اور قیامت کے دن بھی خدا کے انتقام سے نہیں بچ سکتا۔ بہرحال ایک جھوٹے مدعی نبوت کذابِ قادیان کے گھر پیدا ہونے والے مرزا محمود سے یہی توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ محمد عربی کی عزت کی حفاظت کے لئے قتل کو ایک جرم اور قانون شکنی قرار دے۔ لیکن قادیانیوں کو یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جب بھی ناموس رسالت کے دشمنوں کو سزا دینے میں قانون غیر موثر ثابت ہو گا تو پھر شمع رسالت کے پروانے اپنا خون دے کر ناموس رسالت کی حفاظت کا فرض خود ادا کریں گے۔ راج پال کے ساتھیوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حرمت رسول پر جان بھی قربان کا مطلب یہ ہے کہ ایک عاشق رسول پہلے اپنے ہاتھوں سے گستاخ رسول کا سر تن سے جدا کرتا ہے اور پھر وہ پھانسی کے رسے کو چوم کر اپنی جان شمع رسالت پر نچھاور کر دیتا ہے عشق رسول کی تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے اور غازی علم الدین شہید نے بھی ہمیں یہی سکھایا تھا۔