لاہور (سروے احسان شوکت) صوبائی دارالحکومت میں ”ٹریفک جام“ سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ شہری گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنے، آلودگی اور شور کے باعث چڑچڑے پن کا شکار ہو گئے اور نفسیاتی مریض بن کر رہ گئے۔ ٹریفک پولیس اور دیگر متعلقہ محکمے اس مسئلہ پر قابو پانے کے لئے عملاً اقدامات اٹھانے یا منصوبہ بندی کی بجائے دوسروں پر ملبہ ڈال کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ ”نوائے وقت“ کی خصوصی رپورٹ کے مطابق وارڈنز کی نااہلی، ٹیپا کی طرف سے خراب اشاروں کو ٹھیک نہ کرنے، ضلعی حکومت کی عدم دلچسپی، ٹرانسپورٹ پلاننگ کے فقدان اور تجاوزات کی بھرمار کے باعث شہر بھر کی س ڑکوں پر ٹریفک کا مسئلہ گھمبیر صورتحال اختیار کر گیا۔ اس وجہ سے سارا دن بدترین ٹریفک جام رہتی ہے اور لوگ گھنٹوں جام ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔ ریپڈ بس سسٹم کی تعمیر کی وجہ سے پہلے ہی شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے۔ ایمبولینسز بھی ٹریفک میں پھنسی رہتی ہیں۔ وارڈنز ٹریفک کو چلانے کی بجائے سڑکوں سے غائب یا پھر سڑک کنارے ٹولیوں کی شکل میں گپیں مارنے میں مگن ہوتے ہیں۔ شہر میں نصب 197 ٹریفک اشاروں میں سے 130 خراب ہیں۔ ہر سڑک پر مختلف متعلقہ محکموں سے ملی بھگت اور ان کو حصہ دے کر تجاوزات قائم کر دی گئی ہیں۔ دریں اثناءچیف ٹریفک پولیس آفیسر لاہور کیپٹن (ر) سہیل چودھری نے ”نوائے وقت“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہیں جبکہ 80 لاکھ موٹرسائیکلیں بھی رجسٹرڈ ہیں۔ بیشتر ٹریفک اشارے خراب ہیں۔ لوڈشیڈنگ پر اشارے کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ اب شہر میں سولر انرجی سے ٹریفک اشارے چلانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔