اسے حُسن اتفاق کہئے یا کچھ اور جب وزیراعظم محمد نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرکے پاکستان واپس آ رہے تھے تو مَیں امریکہ جا نے کی تیاری کر رہا تھا لیکن جب میاں نواز شریف امریکہ کے 4 روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے تو میں پاکستان واپس آ رہا تھا اس لئے میری امریکہ میں موجودگی کا وزیراعظم کی ”امریکہ یاترا“ سے کوئی تعلق نہیں تھا، میں اپنی بیٹی سے ملاقات کیلئے 17 ہزار کلو میٹر کا فضائی سفر طے کر کے امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے ایک خوبصورت شہر گینزول (gainsville) گیا تھا تاہم ایک اخبار نویس کی حیثیت سے وزیراعظم محمد نواز شریف کی امریکہ میں ”مصروفیات“ کے بارے میں اپنے آپ کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھا۔ امریکہ میںموجود پاکستانی نژاد صحافیوں سے وزیراعظم محمد نواز شریف کے دورہ¿ امریکہ کے بارے میں اطلاعات کا تبادلہ ہوتا رہا۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران وزیراعظم محمد نواز شریف کا یہ امریکہ کا دوسرا دورہ تھا لیکن دورے کی اہمیت اس لحاظ سے اہم تھی کہ وزیراعظم محمد نواز شریف امریکہ کے ”سرکاری مہمان“ کے طور پر واشنگٹن گئے تھے، وزیراعظم کی حیثیت سے 15سال بعد انہیں امریکہ جانے کا موقع ملا ہے۔ یہ دورہ ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ پر حملہ کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں پائی جانے والی کشید گی کے ماحول میں ہُوا ہے اور وزیراعظم محمد نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے دورے پر روانگی سے قبل ہی کہہ دیا تھا کہ اس دورے سے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہ رکھی جائے اگر اس دورے کو پاکستان اور امریکہ کے درمیان ماضی میں امریکہ کے ”جارحانہ طرزِ عمل“ سے پےدا ہونے والی ”غلط فہمےوں اور ناراضگےوں“ کو دور کرنے کی ایک کوشش تھی جس میں دونوں اطراف سے مثبت انداز میں پیشرفت ہوئی ہے لیکن ”خارجہ امورکے نام نہاد ماہرین“ اور کچھ ”سیاسی مسخرے“ اینکر پرسن کو دئیے گئے ایجنڈے کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے دورہ¿ امریکہ کو ناکام ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں حتیٰ کہ اوول آفس میں امریکی صدر بار اوباما سے ملاقات کے موقع پر وزیراعظم محمد نواز شریف کے تحریر شدہ نوٹس سے بیان پڑھنے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، ایک اینکر پرسن کی جانب سے ان کے دورہ¿ پاکستان کو قومی نقصان قرار دینے پر اصرار مسلم لیگی سینیٹر محمد رفیق رجوانہ کو یہ پوچھنا پڑا کہ اس دورے سے کیا نقصانات ہوئے ہیں؟ پاکستان جو پچھلے 66 سال سے مسلسل امریکی امداد حاصل کر رہا ہے 68 بلین روپے کی امداد جو کسی ملک کو دی جانے والی سب سے زیادہ امریکی امداد ہے لیکن پاکستان میں ”حاکمیت“ قائم کرنے کی خواہش کے باعث امریکہ کو عوام میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا وزیراعظم محمد نواز شریف کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی 1.6 بلین ڈالر کی امداد بحال کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن اس دورے کے دوران اگر وہ امریکیوں سے اپنا مو¿قف تسلیم نہ کرا سکے تو ان کی ”ہاں میں ہاں“ بھی نہیں ملائی۔ ان کی امریکہ کے ایک ایسے صدر سے ملاقات تھی جو پوری دنیا کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ میں نے امریکہ میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کی ہے کہ امریکہ کے عام شہریوں کے دل میں پاکستان کے بارے میں دوستانہ طرزِ عمل پایا جاتا ہے اگر کہیں خرابی پائی جاتی ہے تو وہ امریکی ایسٹیبلشمنٹ میں ہے جو پوری دنیا میں امریکہ کی بالادستی قائم کرنے کی سوچ رکھتی ہے اس سوچ کو اکیلے نواز شریف یا کوئی اور تبدیل نہیں کر سکتا بلکہ اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تجربات ہی امریکہ کو اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ سٹیٹجک پارٹنر ہونے کے باجود پچھلے پانچ سال کے دوران پاکستان کے کسی وزیراعظم کو امریکہ کا دورہ کرنے کی دعوت نہیں دی گئی لیکن محمد نواز شریف کو تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی امریکہ کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت مل گئی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کی اپنے دورہ¿ امریکہ میں پائی جانے والی خود اعتمادی میں ان کو 11 مئی 2013ءکے عام انتخابات میں حاصل ہونے والے بھاری مینڈیٹ کا بڑا عمل دخل ہے۔ انہوں نے اپنے دورہ میں امریکی حکام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان پچھلے 13 سال دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کی آگ میں جل رہا ہے وہ امریکہ کی لگائی ہوئی ہے وہی اس کو بُجھانے کا کوئی راستہ نکال سکتا ہے پاکستان نے پچھلے 66سال میں امریکہ سے 68 بلین ڈالر کی امداد حاصل کی لیکن دہشت گردی کے خلاف مسلط کی گئی جنگ میں 50 ہزار سے زائد پاکستانی جن میں معصوم بچے اور خواتین شامل ہیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جنگ میں پاکستان کے پاک بھارت دو جنگوں میں اتنے فوجی افسران اور جوان شہید نہیں ہوئے جتنے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے ان تمام عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بات کی جو پاکستان کے آئین اور وفاق کو تسلیم کرتے ہیں تو امریکی حکام نے طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع کرنے کی تائید کی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان رومانس میں ”کبھی گرمجوشی ا ور کبھی سرد مہری“ دیکھنے میں آئی ہے لیکن اس کے باوجود 66 سال سے پاکستان امریکی کیمپ کا ہی حصہ چلا آ رہا ہے پاکستان نے امریکی کیمپ میں رہنے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل نواز شریف حکومت کو ورثے میں ملی ہیں یہ مسائل لیکر ہی وزیراعظم محمد نواز شریف امریکہ کی پاس گئی تھی میاں نواز شریف نے ”امریکی دربار“ میں ڈرون حملے بند کرنے کی آواز تو اُٹھائی ہے لےکن وہ اس بارے مےں امرےکہ کی ”ڈرون اٹےک“ کی پالےسی کو راتوں رات تبدےل نہیں کرا سکے۔
وزیراعظم نواز شریف کی ”امریکہ یاترا“
Nov 02, 2013