بعض اوقات ایک جملہ پورے کالم پر بھاری ہوتا ہے۔ یہ بات زور لگا کے نہیں کہی جا سکتی۔ آدمی حیران ہوتا ہے اور حیرت خوشی سے بڑی ہوتی ہے۔ میں نے یہ جملہ برادرم قیوم نظامی کی سیرت رسول کے حوالے سے کتاب معاملات رسول پر گفتگو کے دوران کہا تھا۔ جسے صدر محفل نامور قانون دان ایس ایم ظفر نے بہت سراہا تھا۔ میرے بابا جی صاحب عرفان بابا عرفان الحق نے کہا کہ میرے حضور ہر تمہید کو تکمیل کی طرف لے گئے۔ ہر معاملے میں جامعیت اُن کا مقصد تھا۔ میرے آقا و مولا رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمد نے فرمایا۔ مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ میری اُمت کے لوگ غریب ہو جائیں گے۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ وہ امیر ہو جائیں گے۔ یہ حقیقت کچھ اور حقیقت بن کر ہمارے آج کے معاشرے میں ظاہر ہو چکی ہے۔ آج ہمارے امیر کبیر مسلمانوں نے کرپشن بے انصافی اور ہر طرح کی گندگی کے ڈھیر لگا دئیے ہیں کہ انسانیت اُن کے نیچے دب کے رہ گئی ہے۔
ڈھالے ہیں سیم و زر نے کمینے نئے نئے
٭٭٭٭٭
ایک خط نوائے وقت میں شائع ہوا ہے۔ ایک بچی ایم بی بی ایس کر رہی ہے۔ وہ تیسرے سال میں ہے۔ بہت قابل بچی ہے۔ مگر فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے وہ تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ اُسے جنون ہے۔ شاید اس طرح قابل لیڈی ڈاکٹر پاکستان کو ملے۔ اس وقت تک تو کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں جس کے لئے مریضوں کو خیال آئے کہ اُس سے علاج کرانا چاہئے۔ اس کی والدہ مسز تنویر اپنی بیٹی کے لئے بہت پریشان ہیں۔ کسی آدمی کے دل میں آئے کہ بچی کی مدد کرے تو اس کی والدہ سے اس کے موبائل نمبر پر رابطہ کرے 0335-4501316۔ ایک مریض بچی کی زندگی بچانا نیکی ہے اور وہ بچی جو بچیوں کی زندگی بچانے کی آرزو رکھتی ہے۔ اُسے ڈاکٹر بننے میں مدد کرنا بھی بہت بڑی نیکی ہے۔ جزاک اللہ۔
٭٭٭٭٭
عمران خان نے بلاول بھٹو زرداری کو بے بی بھٹو کہا ہے۔ بے نظیر بھٹو بی بی بھٹو ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بابا بھٹو کہتے ہیں۔ بابا بی بی اور بے بی۔ اب پیپلز پارٹی کا خاندانی کورم پورا ہو گیا ہے۔ عمران خان بھی تو ساٹھ سال سے اوپر ہو گیا ہے مگر نوجوان اُسے نوجوان لیڈر سمجھتے ہیں۔ بلاول نے عمران خان کو بزدل خان کہا ہے۔ بلاول کے نانا بھٹو صاحب نے سیاستدانوں کے نام رکھے تھے جن میں اصغر خان کے لئے آلو خان بہت مشہور ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭
مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان شیر ہے اور شیر صرف شریف برادران اور شریف فیملی کے لوگ ہیں۔ وہ جب کہیں پہنچیں تو شیر آیا کی صدائیں گونجتی ہیں۔ اب کم ہو گئی ہیں۔ شیر دھاڑتا تھا تو لوگوں کے دلوں میں آرزوئیں تڑپنے لگتی تھیں۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد شیر کی دھاڑ مار دھاڑ میں بدل گئی ہے۔ مہنگائی بدامنی لوڈشیڈنگ حکمرانوں کی بدعملیوں اور بے عملیوں نے لوگوں کا کچومر نکال دیا ہے۔ حکومت کے خلاف لوگ چیختے چلاتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ایک میگزین ”سُنہری حروف“ کے ٹائٹل صفحے پر ایک جملہ آیا ہے۔ جس نے مجھے امید و بیم کی کشمکش میں بھی مسکرانے پر مجبور کر دیا ہے۔
شیر دھاڑے گا یا لوگ دھاڑیں ماریں گے
٭٭٭٭٭
ہر معاملے پر APC بلانے کی تجویز حکومت والوں کی طرف سے آ رہی ہے۔ کسی نے کہا APC تو بچوں والی ABC بن گئی ہے۔
٭٭٭٭٭
شیخ رشید نے کہا کہ مجاہدین کو کشمیر سے روکا گیا تو دہشت گردی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ مجاہدین ہیں جنہوں نے امریکہ کے لئے روس کو جنرل ضیا کی قیادت میں افغانستان سے نکالا تھا۔ اب خود امریکہ افغانستان میں آیا ہوا ہے۔ تو اُس نے مجاہدین کو دہشت گرد بنا دیا ہے۔ یہ بھی وقت شاید آئے کہ پھر دہشت گردوں کو مجاہدین بنا دیا جائے۔
٭٭٭٭٭
”صدر“ زرداری کے منہ بولے بھائی سندھ کے وزیر بلدیات بلکہ ”بے محکمہ وزیراعلیٰ“ اویس مظفر ٹپی نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو کسی صورت میں تبدیل نہیں کیا جائے گا اس سے پہلے ”قائم مقام علی“ شاہ نے کہا کہ اویس مظفر ٹپی وزیراعلیٰ سندھ بننے کی کوشش ہرگز نہیں کر رہے؟ چپکے سے اویس ٹپی کو یہ بھی کہلوا بھیجا ہے کہ میرا خیال رکھنا۔
٭٭٭٭٭
سینٹ میں اپوزیشن کی مشترکہ پریس کانفرنس میں سینئر پارلیمنٹیرین کامل علی آغا نے اسحاق ڈار کے لئے اسحاق ڈالر کہہ کر نام لیا۔ پارلیمنٹ میں قیمتوں کے ہوشربا اضافے کے سوال پر کہا جاتا ہے کہ اسحاق ڈالر ملک سے باہر ہیں۔ واپسی پر جواب دیں گے بلکہ لاجواب کریں گے۔ عوام پریشان ہیں کہ وزیراعظم کے ہر دورے میں اسحاق ڈالر کیوں شامل ہوتے ہیں؟ امیر کبیر حکمرانوں کے ساتھ اکاﺅنٹنٹ تو ہوتا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی خوشخبری تو ہر وقت دینا پڑتی ہے۔
٭٭٭٭٭
اقبال راہی قادر الکلام شاعر ہے۔ وہ فی البدیہہ شعر کہنے کا بھی ماہر ہے۔ بیٹھے بیٹھے برمحل برموقعہ بروقت شعر کہنے میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ وہ درویش شاعر ہے۔ دوستوں کی عزت محبت اور خدمت میں آگے آگے رہتا ہے۔ اُس نے یہ قطعہ میرے کالم کے لئے خاص طور پر چند منٹوں میں لکھ کر دیا ہے۔ شکریہ۔
بھوک افلاس ڈرون اور یہ قتل و غارت
رہ گئے ہم تو فقط لاشیں اٹھانے کے لئے
اب تو ہر شخص کے ہونٹوں پہ یہی شکوہ ہے
شیر میدان میں آیا ہمیں کھانے کے لئے
٭٭٭٭٭