اسلام آباد (نامہ نگار + نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) سینٹ میں حکومت اور اسکے اتحادی کورم پورا کرنے میں کامیاب ہو گئے جبکہ اپوزیشن نے سینٹ اجلاس کا بائیکاٹ جاری رکھا۔ اپوزیشن سے بائیکاٹ ختم کرنے اور بامعنی بات چیت کیلئے قائد ایوان سینٹ نے چار رکنی کمیٹی تشکیل دیدی جبکہ سینٹ میں متحدہ اپوزیشن نے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے متضاد اعداد و شمار بتائے جانے پر وزیر داخلہ کے خلاف سینٹ سیکرٹریٹ میں تحریک استحقاق جمع کرا دی ہے۔ جمعہ کو چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری کی زیر صدارت اجلاس صبح ساڑھے 10 بجے شروع ہوا تو چیئرمین نے وقفہ سوالات شروع کر دیا، اس دوران اپوزیشن بنچوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹر زاہد خان نے کورم کی نشاندہی کر دی۔ چیئرمین کی جانب سے گنتی کرائی گئی تو بشمول سینیٹر زاہد خان کورم پورا تھا، زاہد خان نے کہا کہ انہیں شامل نہ کیا جائے لیکن چیئرمین نے کہا کہ کورم کی نشاندہی کرنے والے ممبر کو بھی رولز کے مطابق گنتی میں شامل کیا جاتا ہے لہٰذا 26 ممبران موجود ہیں اور کورم پورا ہے، قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ باوجود اس کے کہ کورم پورا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ کارروائی اسی صورت چل سکتی ہے جب اپوزیشن بھی موجود ہو، دو روز قبل سینٹ میں جو صورتحال پیدا ہوئی وہ افسوسناک ہے، ہماری خواہش ہے کہ اپوزیشن ایوان کی کارروائی میں حصہ لے۔ ہم نے چار سینیٹرز مولانا عبدالغفور حیدری، حاصل بزنجو، عباس آفریدی اور ظفر علی شاہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو کہ اپوزیشن سے بات کرے گی۔ نیئر بخاری نے کہا کہ اچھی پارلیمانی روایت یہی ہے کہ اپوزیشن ایوان میں موجود ہو۔ علاوہ ازیں اپوزیشن کو کورم کی نشاندہی کے معاملے پر دوبارہ زبردست سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت اجلاس کے تیسرے روز کورم پورا کرنے میں کامیاب رہی۔ علاوہ ازیں تحریک استحقاق میں وزیر داخلہ چودھری نثار کے طرز عمل پر شدید احتجاج کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ چودھری نثار نے دہشت گردی کے واقعات اور ڈرون حملوں سے متعلق سینٹ کے اجلاس میں غلط اعداد وشمار پیش کر کے پارلیمنٹ اور ارکان کا استحقاق مجروح کیا ہے لہٰذا اس معاملے پر بحث کی جائے۔ تحریک استحقاق میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ چودھری نثار علی خان اپوزیشن اور قوم سے معافی مانگیں اور اپنا جواب واپس لیں۔ متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں پیپلز پارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی اور (ق) لیگ کے ارکان نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت سینٹ میں قائد حزب اختلاف رضا ربانی نے کی۔ اجلاس میں ایم کیو ایم کے ارکان شریک نہیں ہوئے۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ وزیر داخلہ چودھری نثار سے سینیٹر زاہد خان نے سوال کا جواب واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا مگر انہوں نے اس کو انا کا مسئلہ بنا لیا۔ پرویز مشرف قومی مجرم ہی ہیں اگر مک مکا کے ذریعے چپکے سے باہر نکالنے کی کوشش کی گئی تو مزاحمت کریں گے۔ اپوزیشن نے حکومت سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا تھا جو ناقابل قبول اور نہ ہی کوئی غیر پارلیمانی بات کی تھی۔ حکومت کی جانب سے یہ کہنا کہ اپوزیشن کے پاس کوئی ایشو نہیں ہے اس لئے نان ایشو کو اٹھایا جا رہا ہے یہ صریحاً غلط بات ہے۔ علاوہ ازیں سینٹ کے اجلاس میں حکومت اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود سینٹ اجلاس کا کورم پورا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ایم کیو ایم بھی حکمران اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پہنچ گئی۔ قائد ایوان سینٹ سینیٹر راجہ ظفرالحق نے ایوان بالا میں ناخوشگوار واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور اپوزیشن سے اجلاس کی کارروائی میں حصہ لینے کی اپیل کی۔ اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے چار سرکردہ سینیٹرز پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ قبل ازیں ایم کیو ایم کے سینیٹرز نے حکمران اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کی اور کورم کیلئے تعاون بھی کیا۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار کی جانب سے مختلف سینیٹرز کے سوالات کے تحریری جوابات میں کہا گیا کہ امریکہ سے اتحادی امدادی فنڈ کے تحت پانچ ارب ڈالر کے واجبات کی وصولی کیلئے مشترکہ سروسز ہیڈکوارٹر کے ذریعے کوششیں جاری ہیں آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے سے پاکستانی معیشت مضبوط اور قرضوں کی ادائیگی میں مدد ملے گی۔ زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہو گا۔ عالمی بنک نے پنجاب اور سندھ کیلئے 50 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی منظوری دی ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ موجودہ حکومت نے جون، جولائی، اگست 2013ء کے 3 ماہ میں سٹیٹ بنک سے 683 ارب روپے سے زائد کا قرضہ لیا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے تحریری طور پر بتایا گیا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں امریکی حکومت کے ذمہ 5050 ملین امریکی ڈالر واجب الادا ہیں۔ وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے ایوان کو بتایا کہ حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور ہر شہری جس پر ٹیکس بنتا ہے اسے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور جتنا ٹیکس بنتا ہے اتنا وصول کیا جائے۔ علاوہ ازیں سینٹ میں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے اظہار خیال کرتے میر حاصل بزنجو نے کہا کہ دونوں طرف سے طے کیا گیا ہے کہ پہلے مذاکراتی عمل کا آغاز کیا جائے جبکہ ظفر علی شاہ کا کہنا تھا کہ بات چیت کو کامیاب بنانے کیلئے دونوں طرف سے کسی شرط کی ضرورت نہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزارت خزانہ نے سینٹ میں اعت راض کیا کہ قرضہ سٹیٹ بنک کی مقرر کردہ حد سے زیادہ ہے۔ جولائی میں 302 ارب جبکہ اگست میں 235 ارب روپے قرضہ لیا، حکومت نے جون 2013ء میں سٹیٹ بنک سے 195 ارب روپے قرضہ لیا۔ پیپلز پارٹی نے 5 سال میں 6246 ارب روپے کا قرضہ لیا تھا۔ وزارت خزانہ کے مطابق روپے کی قدر میں سال 2008ء میں 11 فیصد اور 2009ء میں 16 فیصد کمی ہوئی، 2008ء سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 35 فیصد کمی ہوئی، پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین کو جولائی تک تنخواہ ادا کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں وقفہ سوالات کے دوران صرف ایک سوال پوچھا گیا جبکہ ایجنڈے میں شامل امو بھی نہ نمٹائے جا سکے جس پر چیئرمین نیئر حسین بخاری نے اجلاس پیر کی سہ پہر ساڑھے 3 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔