”کاش کوئی ایسی حکومت آ جائے جو اس آئین کو اٹھا کر کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دے، آئین سیاست دانوں نے صرف اپنی بقا کیلئے بنایا.... آئین پیسے والوں اور طاقت والوں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔“
یہ ہیں وہ الفاظ جو سابق فوجی جرنیل پرویز مشرف کے دست راست اور قریبی عزیز جنرل شاہد عزیز نے نوائے وقت سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہے ہیں۔ جنرل صاحب کی اس ذاتی رائے کا تجزیہ بھی بہرحال ضروری ہے۔
آئین کیا ہے؟ آئین کسی قوم کیلئے ایک مشعل کی حیثیت رکھتا ہے اور آ گے بڑھنے کیلئے رہنمائی کا کام دیتا ہے۔ یہ قوم کی تمناﺅں کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اسکی وسیع سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں عوام کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔ وہاں اسے قومی آزادی کا پروانہ سمجھا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہماری قومی سیاست کو جس ابتری کا سامنا کرنا پڑا اسکا بڑا سبب ملک کیلئے آئین کی تیاری میں ناکامی تھا۔
پاکستان کی 66سالہ قومی زندگی پر ذرا نظر دوڑائیے، پہلے نو سال غلامی کے ایکٹ کے تحت گزر گئے۔ پھر خدا خدا کر کے بڑی مشکلات کے بعد پہلا آئین نصیب ہوا اور اسے بہرحال سیاستدانوں نے تشکیل دیا مگراس پر مکمل عملدرآمد ہونے سے قبل ہی محض دو سال بعد جنرل ایوب خان کے مارشل لا نے اسے منسوخ کر دیا۔ یہ آئین بہت حد تک متفقہ اور وفاقیت کے تقاضوں پر پورا اترتا تھا۔ مگر سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کے مفادات پرپورا نہیں اترتا تھا۔ ایوب خان نے عوام کو سیاسی نابالغ قرار دے کر اپنی طرف سے 1962ءمیں ایک ایسا آئین عطا کیا جس کی کوئی حقیقی بنیاد تھی اور نہ اس سے وفاق کی مضبوطی کا کام لیا جا سکتا تھا۔ اول تو یہ فرد واحد کا عطا کردہ آئین تھا اور اس میں صدر کی ذات کو اتنی مرکزیت حاصل تھی کہ ناقدین کو یہاں تک کہنا پڑا کہ اس نظام میں جنرل ایوب کی ذات لائل پور (فیصل آباد) کے گھنٹہ گھر کی ہے کہ جدھر سے بھی داخل ہوں سامنے گھنٹہ گھر ہی نظر آئیگا۔ کابینہ، پارلیمنٹ، عدلیہ سب پر صدر حاوی تھا۔ جنرل ایوب خان کی اپنی سوچ تھی۔ اس نے اس سوچ کو آئین میں سمونے کی کوشش کی مگر کیا ایک جرنیل کے دئیے ہوئے آئین نے قوم کی تقدیر بدلی؟ بالکل نہیں۔ معاملہ الٹ ہوا۔ انجام کار اس کی کوکھ سے ایسے سیاسی مسائل پیدا ہوتے گئے کہ بالآخر 1971ءمیں ملک ہی دولخت ہو گیا۔ بلاشبہ جنرل ایوب کے آئین کے علاوہ جنرل یحیٰی، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کا منفی کردار بھی ملک کی دولخت کرنے کا سبب بنا۔
بقیہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر سیاستدانوں کی کوششوں سے 1973ءمیں قوم کو ایک متفقہ آئین نصیب ہوا۔ تھوڑے عرصے کے بعد ہی بھٹو صاحب نے مرضی کی تبدیلیاں آئین میں کر لیں مگر اس آئین کے ساتھ جو کھلواڑ جنرل ضیاالحق اور بعد ازاں جنرل پرویز مشرف نے کیا اس کے نتیجے میں آئین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا۔ ضیاالحق نے 1977ءمیں بھٹو حکومت ختم کر کے مارشل لا نافذ کیا اور 1985ءتک آئین کو معطل رکھا۔ ان آٹھ برسوں میں اپنا ہی آئین اور نظام نافذ رکھا۔ اس دوران وہ مختار کل تھے! قوم کو کیا ملا؟ فرقہ پرستی، صوبائیت اور لسانیت کے تحفے انہی جرنیل صاحب کے دئیے ہوئے ہیں۔ جس کا خمیازہ پوری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ اللہ اللہ کر کے 1985ءمیں جنرل ضیاالحق نے آئین تو بحال کر دیا مگر اپنے غیر آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ دلانے اور مرضی کی ترامیم کرنے کی شرط پر۔ یوں انہوں نے اپنے اقتدار اور اختیار کو محفوظ اور تقویت دینے کا پورا پورا اہتمام کر لیا۔ آئین کی آٹھویں ترمیم کا تماشا انہوں نے ہی شروع کی اور 58ٹو بی کی شق کے ذریعے آئین کے اندر ایک ایسا بیج بویا کہ ہر دو تین سال بعد پارلیمنٹ کی پکنے والی فصل کو اس شک کی درانتی سے کاٹا جاتا رہا۔ اس کا پہلا وار خود انہوں نے اپنی ہی بنائی ہوئی حکومت اور پارلیمنٹ پر کیا۔ جب 1988ءمیں جونیجو حکومت اور قومی اسمبلی کو برخاست کر دیا گیا تھا۔
سیاست دانوں کو جب بھی موقع ملا فوجی جرنیلوں کی آئین میں داخل کی گئی غیرقانونی اور ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ میاں محمد نواز شریف کو جب اپنے پہلے دور حکومت کے دوران دو تہائی اکثریت کا مینڈیٹ ملا تو انہوں نے آئین میں بعض ترامیم کر کے جنرل ضیاالحق کے آٹھویں ترمیم کے تماشے کو بند کیا۔ مگر بدقسمتی سے میاں نواز شریف صاحب سے بھی غلطیاں ہوئیں اور ایک مرتبہ پھر ان غلطیوں کا پورا پورا فائدہ طالع آزماﺅں نے اٹھایا۔ اب کی بار انداز قدرے مختلف تھا۔ نہ مارشل لاءلگا، نہ آئین منسوخ ہوا۔ عدلیہ کے کمال فیض سے جنرل پرویز مشرف نے آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل کر لیا اور پھر اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے خود عدلیہ کو بھی چلتا کیا۔ کبھی لیگل فریم ورک آرڈر، کبھی ایمرجنسی کا نفاذ، کبھی چیف جسٹس اور ججوں کی برطرفی اور بالآخر آئین کی سترہویں ترمیم کے ذریعے اقتدار و اختیار کو محفوظ بنا لیا گیا۔ مفاد پرست سیاستدانوں نے اس کا پورا پورا ساتھ دیا۔ اکثر اختیارات صدر کی حیثیت میں پرویز مشرف نے اپنی ذات میں سمو لئے۔ فوج کی سربراہی بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ ان دونوں جرنیلوں کی خوش قسمتی کہ دونوں کے ادوار میں مسئلہ افغانستان کی وجہ سے یہ امریکہ کی ضرورت بن گئے اور اس ضرورت کا انہوں نے اپنے حق میں پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ جنرل پرویز مشرف کی آئینی تجاوزات کو گذشتہ برسوں میں سیاست دانوں نے متفقہ طور پر آئین کی اٹھارویں اور انیسویں ترمیم کے ذریعے ہٹایا ہے اور آئین کو پارلیمانی و وفاقی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں بدلتے ہوئے حالات کے مطابق کچھ نئے اصولوں کو بھی شامل کیا ہے۔
اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ آئین کا حلیہ کس نے بگاڑا؟ سیاست دانوں نے یا فوجی طالع آزماﺅں نے اور اس کے ثمرات عوام تک کس نے نہیں پہنچنے دئیے؟ صرف سیاستدانوں نے یا پھر طالع آزماﺅں نے بھی؟ جنرل شاہد عزیز صاحب نے آدھا سچ بولا ہے۔ پورا سچ وہ ہوتا ہے جو اپنے بارے میں بھی بولا جائے! اور پورا سچ تو یہی ہے کہ آئین کو کوڑے کی ٹوکری میں پھینکنے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کو کوڑے میں پھینکنے کی ضرورت ہے جنہوں نے آئین کو توڑا، اس کا حلیہ بگاڑا۔