فتح محمد ملک نے اپنی کتاب ’’ فتنہ انکار پاکستان‘‘ اور نوائے وقت میں شائع ہونے والے اپنے کالموں میں ان لوگوں کی بھی خوب خبر لی ہے بلکہ بزرگانہ انداز میں ملامت بھی کی ہے جو لوگ قائد اعظم کی شان میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے ایک شخص کو قومی ہیرو کہتے ہیں۔ ممکن ہے یہ لوگ غلط فہمی اور لا علمی کے باعث ایسا کرتے ہوں۔ اگر کوئی محب وطن پاکستانی چودھری رحمت علی کی کتاب ’’ پاکستان دی فادر لینڈ آف پاک نیشن‘‘ کا خود مطالعہ کرے اور وہ گندی اور ننگی گالیاں اپنی آنکھوں سے دیکھ لے جو برصغیر کے مسلمانوں کے نجات دہندہ، ملت اسلامیہ کے عظیم محسن اور قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد بھی پاکستانیوں کے واحد غیر متنازعہ لیڈر قائد اعظم کے لئے چودھری رحمت علی نے اپنی کتاب میں لکھی ہیں تو اس کے دل میں چودھری رحمت علی کے لئے نفرت کے جذبے کے علاوہ دوسرا کوئی جذبہ نہیں ہو سکتا۔ چودھری رحمت علی نے ایک کاغذی تنظیم بنا رکھی تھی۔ برصغیر کی عملی سیاست میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ وہ صرف پمفلٹ لکھ کر محدود تعداد میں شائع کر دیتے تھے۔ نہ انہوں نے خود اور نہ ہی ان کی کاغذی تنظیم کی طرف سے کسی شخص نے کبھی الیکشن میں حصہ لیا۔ 1940ء سے لے کر 1947ء تک جب تحریک پاکستان کا بھر پور دور تھا ان کی کوئی جھلک قیام پاکستان کی عملی جدو جہد میں نظر نہیں آتی۔ ان کے 14اگست 1947ء کو معرض وجود میں آنے والے نقطئہ نظر کو سمجھنے کے لئے ان کی یہ تحریر کافی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ ہمارے عوام کو یہ گھٹیا چیز (جیسا پاکستان بنا تھا)دے کر دھوکہ دینے کی ایک مکارانہ کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کی شکل بگاڑنے والا غدار اعظم جناح ہے‘‘۔ چودھری رحمت علی نے اپنے مضامین میں قائد اعظم کو دشمن سے ساز باز کر لینے والا غدار اور پھر میر جعفر اور میر صادق سے بھی بڑا غدار لکھا۔ قائد اعظم کی عظیم الشان شخصیت کے بارے میں چودھری رحمت علی نے جو ناشائستہ زبان استعمال کیا اس کا بار بار حوالہ دے کر میں نوائے وقت کے قارئین کے دل و دماغ کو مزید دکھ نہیں پہنچانا چاہتا ۔ صرف اتنا عرض کروں گا کہ قائد اعظم کی شان میں گالیاں دینے سے ان کی عزت و احترام اور مقام و مرتبہ میں تو کوئی کمی پیدا نہیں کی جا سکتی البتہ قائد اعظم کی شان میں گستاخی کرنے والے کی اپنی عزت (جتنی بھی ہو)ضرور ختم ہو جائے گی۔ قائد اعظم کی تاریخ ساز جدو جہد سے انکار کرنے والا در اصل پاکستان کے وجود سے انکار کرتا ہے ایک ہندو دانشور خاتون سرو جنی نائٹرو نے لکھا تھا ’’ اگر مسلم لیگ میں ایک سو گاندھی اور دو سو ابو الکلام آزاد ہوتے اور کانگرس میں صرف ایک مسٹر جناح ہوتے تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔‘‘ قیام پاکستان کے شدید مخالفین بھی یہ گواہی دیتے ہیں کہ انڈیا کی تقسیم اور پاکستان کا قیام صرف محمد علی جناح کی وجہ سے عمل میں آیا۔ جناح پر ہندوئوں کی نمائندہ جماعت کانگرس کے لیڈر جتنی زیادہ تنقید کرتے تھے متحدہ ہندوستان کے مسلمان اتنی ہی زیادہ محبت اپنے قائد اعظم سے کرتے تھے۔ ملت اگر جسم تھی تو محمد علی جناح اس کی جان تھے۔ اب جو شخص قیام پاکستان کا عظیم کارنامہ سر انجام دینے کے باعث قائد اعظم سے اپنے دل میں بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتا ہے۔وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ قائد اعظم کے خلاف دشنام طرازی کرنے والے کسی بھی فرد کو قومی ہیرو قرار دیا جائے ۔ کیا پاکستان کے قومی ہیرو کی یہ تعریف اور پہچان ہے کہ وہ 14اگست کو قائم ہونے والے پاکستان کو ذلیل ترین غداری کا نام دے اور بانی پاکستان کو قائد اعظم قرار دے۔ تحریک پاکستان یا قیام پاکستان کی عہد ساز جدو جہد کو قائم اعظم سے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ جو قائد اعظم کا دشمن ہے وہ قیام پاکستان کا بھی دشمن ہے۔ کالم کی تنگ دامنی کے باعث میں اس سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ جو تفصیل کے ساتھ پاکستان کے دشمنوں کے چہروں کو بے نقاب کرتی ہوتی تحریریں پڑھنا چاہتا ہو وہ فتح محمد ملک کی کتاب’’ فتنہ انکار پاکستان‘‘ براہ راست پڑھ لے۔ آخر میں ایک معذرت جناب مجید نظامی کی روح کے ساتھ کہ میں نے ان کی بتائی ہوئی کتاب پڑھنے میں دیر کر دی۔ (ختم شد)
’’فتنہ انکار پاکستان ‘‘
Nov 02, 2014