بابا صاحبؒ کا عرس ۔۔۔!

 بابا صاحبؒ فرماتے ہیں، اے فریدو! قبر میں پڑے ہوئے مُردے کی یہ حالت ہے کہ اس کے سرہانے تکیے کی جگہ اینٹ ہے۔ اس کا سونا نرم گرم بستر کی بجائے سخت اور کھردری زمین پر ہے اور کیڑے اس کے جسم کو کاٹتے رہتے ہیں۔ اے کوّے! میرا ہڈیوں کا ڈھانچہ نہ نوچ بلکہ اگر تیرا بس چلے تو کم از کم یہی سوچ کر یہاں سے اُڑ جا کہ ہڈیوں کے جس ڈھانچے میں میرے محبوب کا بسیرا ہے تجھے اس کا گوشت نہیں کھانا چاہئے۔ شیخ فرید بوڑھا ہو گیا ہے اور بڑھاپے کے باعث اس کے اعضائے جسمانی پر رعشہ طاری رہنے لگا ہے۔ یہ زندگی ایک کنواںکی مانند ہے۔ کنویں سے پانی نکالتے ہوئے اپنی خیر مناﺅ اور اپنی عاقبت کی فکر کرو کیونکہ تمہاری ماہل ٹوٹنے لگی ہے۔ ماہل کے ٹوٹتے ہی تم دھڑام سے کنویں میں جا گرو گے۔“ سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ دہلی میں تشریف فرما تھے۔ سلطان نے انہیں ’شیخ السلام‘ کا عہدہ قبول کرنے کی گذارش کی تھی لیکن آپ نے منظور نہ کیا۔ انہی دنوں بابا فرید الدین گنج شکرؒ ملتان میں تعلیم مکمل کر کے شیخ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی خدمت میںدہلی پہنچے تھے۔ اسی دور میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اجمیر سے دہلی تشریف لائے اور فرید الدینؒ سے ان کا تعارف ہوا تو انہوں نے اپنے مرید خاص قطب الدین بختیار کاکیؒ سے فرمایا ”بابا بختیار! تم نے عظیم شہباز قید کر لیا جو سدرةالمنتہیٰ سے کم کسی مقام پر آشیانہ نہیں بنانا چاہتا۔ یہ فرید ایسی شمع ہے جس کی بدولت درویشوں کا خاندان منور ہو گا۔“ سلطان التمش کی وفات کے بعد اس کا چھوٹا بیٹا سلطان ناصرالدین محمود بابا فریدؒ کے عہدِ روحانیت سے فیضیاب ہوا۔ اس نے اپنے وزیر الغ خاںکے ہاتھ اجودھن (پاکپتن) میں حضرت بابا صاحبؒ کے حضور ہدیہ اور سلام بھیجا۔ الغ خاں عقیدت نامہ اور ہدیہ لے کر بابا فرید ؒؒؒؒکے حضور پہنچا۔ آپ نے فرمایا یہ زر فقیروں میں تقسیم کر دو اور پھر چند اشعار سنائے ”فریدوں، بادشاہ یا فرشتہ نہ تھا اور عود و عنبر سے بھی اسکا کوئی تعلق نہ تھا جو اس کے عدل و انصاف کی خوشبو سارے جہاں میں پھیلی، اس نے یہ شہرت وفاداری کے ذریعے حاصل کی تھی۔ تو بھی خیرات کر اور فریدوں ہو جا“۔ الغ خاں شیخ فریدؒ کی بات کا راز پا گیا۔ آپ کے قدم چومے اور ہاتھ جوڑ کر عرض کی تو آپ نے فرمایا ”فریدوں توئی“۔ چند روز گزرے تھے کہ سلطان ناصرالدین کا انتقال ہو گیا اور الغ خاں غیاث الدین بلبن کے نام سے دہلی پر تخت نشیںہوا۔ وقت وصال بابا فریدؒ کی عمر 93 برس تھی۔ شدید بیمار تھے مگر نماز میں غفلت نہیں برتتے تھے۔ جب ہوش آتا یہی پوچھتے کہ میں نے نماز ادا کر لی ہے اور ایک نماز کو دو تین بار ادا کرتے۔5 محرم 664ھ کو عشاءکی نماز تین بار ادا کی اور آخری سجدے میں دنیا فانی سے رخصت ہو گئے۔ حضرت بابا صاحبؒ کا وصال سلطان بلبن کے عہد حکومت میں ہوا۔ سلطان نے آپ کے مزار کی تعمیر میں کثیر رقم ہدیہ کی۔ آج بابا صاحب کے شہر پاکپتن میں بڑے بڑے میلے سجتے ہیں، شکر تقسیم ہوتی ہے، دیگیں پکتی ہیں جبکہ بابا صاحبؒ کو اپنے اس مرید کا انتظار ہے جو اس انتہا پسند دور میں اسلام کی اصل روح کو زندہ کر سکے۔ برسوں پرانی بات ہے کہ ایک امریکی گورے نے امریکہ چھوڑ کر بابا جیؒ کے قدموں میں جا ڈیرہ لگایا۔ ایک سفید فام نو مسلم نوے کی دہائی میں ایک سکول بس کا ڈرائیور تھا۔ اسکی اہلیہ بھی مسلمان تھی، چار بچے تھے۔ ہماری امریکہ کی ایک مسجد میں اکثر ملاقات ہوتی تھی۔ اس کی نو مسلم اہلیہ اسلامی سکول میں معلمہ تھی۔ ہم لوگ سعودی عرب منتقل ہو گئے اور پرانے دوستوں سے رابطہ نہ رہا۔ کسی دوست نے بتایا کہ مسٹر ابراہیم پاکپتن بابا فرید گنج شکرؒ کی درگاہ چلے گئے ہیں۔ اس اطلاع کے برسوں بعد امریکی مسلم ابراہیم کو سعودی عرب میں دیکھ کر مسرت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صوفیاءکرام اور تصوف کے وسیلے سے مسلمان ہوئے۔ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ سے بے حد متاثر ہوئے۔ ان سے روحانی وابستگی ایک روز انہیں ہمیشہ کے لئے پاکپتن لے گئی۔ بیوی بچے بھی ہمراہ تھے۔ بابا جی کی درگاہ کے قریب ایک چھوٹے سے گھر میں چھ برس گزار دیئے۔ شب و روز بابا جی کے حضور حاضری ہوتی۔ پاکپتن کے کسی سکول میں بچوں کو انگریزی پڑھانا شروع کر دی۔ عزت کے ساتھ گزارا ہو جاتا تھا۔ روحانیت کی حقیقت اور تصوف کا عملی تجربہ بابا جی کے حضور نصیب ہوا۔ ابراہیم روانی کے ساتھ اردو بول سکتے تھے جبکہ پنجابی زبان بھی سمجھ رہے تھے۔ کہنے لگے کہ جب میری روحانی تعلیم و تربیت ہو گئی تو بابا صاحب نے انہیں مدینہ المنورہ منتقل ہونے کا اشارہ فرما دیا۔ ابراہیم اپنی فیملی کے ہمراہ نبی کریم کے دربار میں پہنچ گئے اور مدینہ کے ہو کر رہ گئے۔ صوفیاءکرام شریعت کی سخت پابند تھے۔ بغیر شریعت کے روحانیت بے معنی ہے۔ شریعت ظاہر ہے اور روحانیت باطن دونوں کے ملاپ سے ایک مسلمان مومن بنتا ہے اور مومن کا دوسرا نام صوفی ہے۔


ای پیپر دی نیشن