امیر ”امیر تر“ غریب ”غریب تر“

Nov 02, 2014

نعیم قاسم

عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں امیر دن بدن امیر ہوتا چلا جا رہا ہے اور غریب دن بدن غریب ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ امیر جماعت اسلامی کا بھی ایک بیان میری نظروں سے گزرا ہے کہ ہم ہرگز یہ برداشت نہیں کریں گے کہ امرا کے پالتو کتے مکھن روٹی کھائیں اور غریب لوگوں کو پیٹ بھرنے کے لئے دو نوالے بھی بمشکل میسر آئیں۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم یا دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز سرمایہ دارانہ معیشت کا قدرتی مظہر ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں معاشی نظام کے بنیادی مسائل کو نفع کے محرک کے تحت قیمتوں کی میکانیت کے ذریعے حل کیا جاتا ہے۔ جاگیرداروں، سرمایہ کاروں، تاجروں اور آجروں کو پیداواری عمل کو منظم کرنے کے عوض منافع حاصل ہوتا ہے۔ عاملین پیدائش کے سستا ترین اشتراک کو ممکن بنا کر ایک خاص حد تک منافع کا حصول کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں اہم کردار کرتا ہے مگر بقول کارل مارکس فالتو منافع (Surplus profit) سرمایہ کاروں، صنعتکاروں اور تاجروں کو تبھی حاصل ہوتا ہے جب وہ محنت اور سرمائے کے مالکان کا ناجائز استحصال کرتے ہیں۔ منڈی کی معیشت میں محنت فراہم کرنے والے عموماً مزدور ہوتے ہیں اور سرمایہ کی فراہمی بنکس اور مالیاتی اداروں کے ذریعے ان بچتوں کی مرہون منت ہوتی ہے جو متوسط طبقے کے افراد معمولی شرح سود پر ان بنکوں، انشورنس کمپنیوں اور سرمایہ کاری کرنے والے اداروں میں رکھتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں مزدوروں کو انتہائی قلیل معاوضہ دیا جاتا ہے ۔ بنکوں میں عام لوگوں کی بچتوں پر انتہائی معمولی منافع دیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں صنعتکاروں، تاجروں، سرمایہ کاروں کو محض عاملیت پیدائش کے مناسب اشتراک، مصنوعات کی فروخت کاری کے لئے بہتر مارکیٹنگ اور سیلز پروموشن کی بدولت چند روپوں کی لاگت سے تیار کردہ اشیا اور ان کو فروخت کرنے والے تاجروں کو کئی ہزار گنا فالتو منافع حاصل ہونا شروع ہو جاتا ہے جبکہ ان اشیاءکی پیدائش عمل میں حصہ لینے والے اہم عامل محنت یعنی مزدور کو اپنی محنت کا جائز معاوضہ خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں نہیں ملتا کیونکہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ہر شے کی قدر اور ان کے معاوضوں کا تعین طلب و رسد کی قوتوں کے باہمی تعامل سے ہوتا ہے چونکہ ان ممالک میں مزدوروں کی رسد ان کی طلب سے زیادہ ہوتی ہے لہٰذا انکو اپنی محنت کے عوض
کم معاوضہ ملتا ہے اور وہ اپنے قلیل معاوضے سے اپنے ہی ہاتھوں سے تیار کردہ مصنوعات کو اپنی آمدنی سے خریدنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ان تیسری دنیا کے ممالک کے ہنرمندوں اور کاریگروں کی محنت کے استعمال سے تیار کردہ مصنوعات ملک میں فروخت کرنے اور دوسرے ممالک میں برآمدات سے سرمایہ دار اور کاروباری حضرات اپنی دولت کو خوب بڑھا لیتے ہیں۔ ویسے بھی منڈی کی معیشت کا یہ اصول ہے کہ وہی عامل پیدائش معاوضے کی صورت میں تقسیم دولت میں سے زیادہ حصہ حاصل کرتا ہے جو کمیاب ہوتا ہے یعنی اس کی طلب اس کی رسد سے زیادہ ہوتی ہے چونکہ سرمایہ دارانہ معیشت میں آجر یا تنظیم کمیاب ہوتی ہے تو اس وجہ سے وہ عاملین پیدائش کے اشتراک سے پیدا ہونے والی دولت میں زیادہ حصہ حاصل کرتی ہے حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عامل پیدائش دولت کا زیادہ حصہ حاصل کرے جس کا دولت کی پیدائش میں زیادہ اہم کردار ہے مگر سرمایہ دارانہ معیشت میں ایسا اصول نہیں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے مارکس کے فلسفے کی بنیاد پر 1917ءمیں روس، چین اور مشرقی یورپ کے متعدد ممالک میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا جہاں منافع کا محرک ختم کرنے کے لئے نجی ملکیت کو ختم کر دیا گیا مگر اس میں جو اہم نقصان ہوا وہ یہ کہ سرکاری نگرانی میں کام کرنے والے مزدوروں میں مسابقت کا جذبہ ختم ہو گیا اور زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لئے ذاتی محرک کے خاتمے نے فرد کی صلاحیتوں کو بھرپور استعمال کرنے کے عمل کو ماند کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جس ملک کی معیشت بھی سرمایہ دارانہ نظام پر استوار ہوتی ہے وہاں پر دولت چند ہاتھوں میں ضرور مرتکز ہو جاتی ہے۔ معاشرہ امیر اور غریب طبقوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایسے میں مغربی ممالک کی فلاحی ریاستیں امراءکی آمدنی پر زیادہ ٹیکس عائد کرتی ہیں اور غریبوں کو لازمی روزگار، صحت، تعلیم اور رہائش کی مفت سہولتیں فراہم کرتی ہیں بلکہ ان ممالک کے امراءخود رضاکارانہ طور پر حکومت کوزیادہ ٹیکس دیتے ہیں جیسا کہ امریکہ میں 2008ءمیں کساد بازاری کا جو بحران آیا تو وہاں کے امراءخصوصاً وارن بفٹ اور بل گیٹس نے حکومت کو آفر کی کہ امراءکی آمدنیوں پر ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی جائے بلکہ یہ دونوں حضرات اپنی آمدنی کا 75 فیصد تیسری دنیا میں پولیو اور ایڈز کی روک تھام پر ”امیلڈ اور بل گیٹس“ فاﺅنڈیشن کے ذریعے خرچ کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کے امرا اول تو حکومت کو براہ راست ٹیکس ہی نہیں دیتے دوسرا ان کی دولت غیر ملکی بنکوں میں ہوتی ہے۔ تیسرا وہ چند کروڑ کی خیرات اور فلاحی کاموں پر ذاتی تشہیر کے لئے خرچ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے اربوں روپوں کے ٹیکس اور سرکاری زمینوں، جس کی وجہ سے جائیدادوں اور سرکاری وسائل پر قبضے کے متعلق پوچھنے کی کوئی جرات نہیں کرتا ۔علاوہ ازیں وہ تمام سیاسی جماعتوں کے مالی طور پر سپانسرز بھی ہوتے ہیں۔
قرآن حکیم زکوٰة کے بارے میں فرماتا ہے کہ یہ مالداروں سے لی جاتی ہے اور غریبوں کو لوٹا دی جاتی ہے بعینہ اس اصول پر مغرب نے عمل کیا اور ہم پاکستانی مسلمانوں نے اس کے برعکس کیا۔ مغرب کے سیاسی اور فکری نظریات اور اس کے فلسفہ زندگی کا کوئی تعلق اسلامی تعلیمات سے نہیں ہے لیکن حیات اجتماعی کے بعض انسانی گوشوں کو مغرب نے اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ قائداعظم کی رحلت کے بعد آج تک اس ملک پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کو نہ تو عدل اجتماعی کے کسی مقصد سے قلبی دلچسپی تھی اور نہ ہی ان کے مفادات نے کبھی انہیں ان خطوط پر کام کرنے کی اجازت دی۔ ہمارے طبقہ اشرافیہ کی نئی تکون سول، ملٹری، (ریٹائرڈ) بیوروکریسی، پراپرٹی ڈیلرز اور کرنسی مافیا اور صنعتکاروں اور تاجروں کا اتحاد ثلاثہ آپس میں کاروباری اشتراک سے کرپشن اور ناجائز طریقوں سے کمایا گیا کالادھن کاروبار میں لگاتے ہیں۔ فارن کرنسی میں تبدیل کرکے کرنسی ڈیلرز کے ذریعے ہنڈی کے استعمال سے اس کو باہر ممالک میں بھیجتے ہیں۔ دوبئی، امریکہ، لندن میں اس کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر جب یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں روپیہ کی قدر میں کمی واقع ہو گئی ہے تو اس کو غیر ملکی ترسیلات کی شکل میں پاکستان واپس لا کر نہ صرف اپنی ناجائز کمائی کو سفید کر لیتے ہیں بلکہ اس پر بے تحاشا منافع بھی کما لیتے ہیں۔
 علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے قیام کے حق میں جو دلائل دئیے تھے ان میں سب سے اہم دلیل یہ تھی کہ اسلام ایک نظام حکومت و سیاست، نظام معاشرت و اقتصادیات رکھتا ہے اور جب تک کسی ملک میں مسلمانوں کو اقتدار حاصل نہ ہو وہ اسلام کے اجتماعی تصورات پر عمل نہیں کر سکتے لیکن ہماری 67 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں آج تک ہمارے حکمرانوں نے پاکستان میں عدل اجتماعی قائم کرنے اور اسے ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانے میں کبھی کوئی سنجیدہ اور موثر کوشش ہی نہیں کی تاکہ غریبوں کی حالت زار کو بہتر بنایا جا سکے اور امیر اور غریب میں معاشی تفاوت کا خاتمہ کرکے پاکستان کو اقبال اور جناح کے تصوروں کے مطابق تشکیل دیا جا سکے۔ افسوس کہ ہمارے آج کے حکمرانوں میں یہ وصف ہی نہیں ہے کہ وہ غریبوں اور امیروں میں غیر معمولی عدم مساوات کو ختم کرنے میں کوئی کردار ادا کریں گے جو پاکستان میں کوئی حقیقی تبدیلی لانے کا باعث بن سکے کیونکہ بقول فیض
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

مزیدخبریں