لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) آئینی ماہرین نے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلئے مدت مقرر کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ مقررہ مدت میں چیف الیکشن کمشنر کے اہم عہدے پر تعیناتی نہ کرنے کی صورت میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو قابل احتساب بنایا جاسکے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اگر 13 نومبر تک چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تقرری نہ کی گئی تو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 213 کے سب سیکشن 2 اے کے تحت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر باہمی مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کیلئے 3 نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوانے کے پابند ہیں۔ آئین پاکستان میں طریقہ کار پر عملدرآمد کیلئے مدت مقرر نہیں جس کے باعث کئی ماہ گزرنے کے باوجود چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعیناتی نہیں ہو سکی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 217 کے تحت سینئر ترین جج کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر مقرر کر رکھا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کی طرف سے فاضل جج کو اس عہدے سے واپس بلا لیا گیا تو پھر ایک آئینی خلا پیدا ہوجائیگا۔ سپریم کورٹ نے اپوزیشن ریڈر کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 13 نومبر تک چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا واضح حکم دیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت اس پر من و عن عملدرآمد کی پابند ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے طریقہ کار پر عملدرآمد اور اسکو قابل احتساب بنانے کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تقرری کیلئے مدت مقر کی جاسکے۔
چیف الیکشن کمشنر/ آئینی ترمیم