White House in Lahore

مجاہد تحریک پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی کے آباد کئے گئے ڈیرے (ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور) میں تحریک پاکستان کے نامور کارکن اور سابق صدر پاکستان نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے محترم مجید نظامی کے جانشین جسٹس (ر) چودھری محمد رفیق تارڑ کی صدارت میں 30 اکتوبر کو منعقدہ تقریب اس لئے اہم تھی کہ تحریک پاکستان کے مالی طور پر کمزور کارکنان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان میں یا ان کے ورثا میں 50 ہزار روپے فی کس کے حساب سے امدادی چیکس تقسیم کئے گئے۔ اس موقع پر تقریب کے مہمان خصوصی گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے اپنے خطاب میں کہا کہ کارکنان تحریک پاکستان ہمارے محسن ہیں اور ہم سب کو انکی بہبود کاخیال رکھنا چاہئیے۔ اس موقع پر یہ بھی بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ نے 68 کارکنان تحریک پاکستان میں پلاٹ بھی الاٹ کئے ہیں۔
پاکستان بیت المال کا قیام اگرچہ غریبوں کی امداد کے لئے عمل میں لایا گیا تھا لیکن ہر دور میں اس کے ”مال“ سے سیاستدانوں کو بھی فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ ان کے بیرونی دوروں یہاں تک کہ انتخابی اخراجات کے لئے بھی بیت المال کے مال کو بھی باوا کا مال سمجھ کر ہڑپ کیا جاتا رہا ہے۔ اس لحاظ سے بیت المال کے ڈائریکٹر محمد ظہیر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ بہت بڑے ”کارخیر کے کاردار“ بن گئے ہیں اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری جنرل میاں فاروق الطاف اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری جنرل سید شاہد رشید بھی جن کی کوششوں سے یہ بیل منڈھے چڑھی۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ جن کارکنان تحریک پاکستان میں 50 ہزار روپے کے امدادی چیکس تقسیم کئے گئے ہیں ان کی 1947ءمیں کم از کم عمر 18 سال رہی ہو تو اس وقت 85 سال ہو گی اورجو انتقال کر گئے ان کے امدادی چیکس وصول کرنے کے لئے ان کے ورثاءموجود تھے۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والے کتنے سادہ تھے کہ اپنے پیارے پاکستان میں 67 سال تک اپنی ضروریات زندگی پورے کرنے کے قابل نہیں بن سکے۔ ان کے پاس کوئی پلاٹ نہیں اور نہ ہی علاج کے لئے پیسے۔ کیا وہ سوچتے نہیں ہوں گے؟ کہ جس پاکستان کے قیام کے لئے انہوںنے انگریزوں، ہندوﺅں، سکھوں اور ہندو مہاسبھائی غنڈوں کو للکارا ان سے انہیں اور ان کے ورثاءکو کیا فائدہ ہوا؟
میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں محمد شریف نے امرتسر سے ہجرت ضرور کی تھی لیکن موصوف تحریک پاکستان کے کارکن ہرگز نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو ڈاکٹر مجید نظامی انہیں گولڈ میڈل ضرور دلواتے۔ قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے میاں شہباز شریف کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میرے والد محترم امرتسر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تو انہوں نے 5 ہزار روپے سے بھٹی لگا کر اپنا کاروبار شروع کیا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں برکت ڈال دی۔ قیام پاکستان کے بعد دولت کی دیوی (لکشمی) لاکھوں لوگوں پر مہربان ہوئی لیکن 50 ہزار فی کس امدادی چیکس وصول کرنے والوں سے ہمیشہ کنی ہی کتراتی رہی۔
یہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا اخلاص ہے کہ انہوں نے کارکنان تحریک پاکستان کے لئے عزت و احترام کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ شاید اس لئے بھی کہ ان کے والد صاحب چودھری محمد عبداللہ اور داد جی چودھری عمر دین نے مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر کے گاﺅں ”کھیراں والا“ سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے تحریک پاکستان کے لئے نمایاں خدمات انجام دی تھیں۔ 5 اگست 2013ءکو گورنر شپ کا حلف اٹھانے سے پہلے اور اس کے بعد چودھری محمد سرور نے کئی بار علامہ اقبال ، قائد اعظم اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو افکار و نظریات کے ترجمان اور مفتی نظریہ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی سے ان کے گھر، دفتر روزنامہ ”نوائے وقت“ اور ایوان کارکنان تحریک پاکستان کے سیکرٹریٹ میں، ملاقاتیں کیں اور ”کارکنان تحریک پاکستان ٹرسٹ“ اور ”نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ کے اشتراک سے منعقد ہونے والی تقاریب سے بحیثیت مہمان خصوصی بھی شرکت کی۔ چودھری محمد سرور ڈاکٹرمجید نظامی کو اپنا ”روحانی مرشد“ قرار دیتے تھے/ ہیں اور جناب مجید نظامی نے بھی چودھری محمد سرور سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور وہ چودھری صاحب کی کامیابی کے لئے دعا گو رہے۔
30 اکتوبر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب مجید نظامی کی قومی خدمات اور ان سے اپنی عقیدت کے جذبات کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے والی خطرناک چیز کرپشن ہے جس کی وجہ سے آج لاہور میں اتنے زیادہ ”White Houses“ ہیں کہ اتنے امریکہ میں بھی نہیں ہیں۔ واشنگٹن میں ریاست ہائے متحدہ کے صدر کی رہائش گاہ اور روسی پارلیمنٹ کا نام بھی ”White House“ (سفید محل یا قصر سفید) ہے کئی مسلمان بادشاہوںنے بھی اپنے لئے ”قصر سفید“ تعمیر کرائے تھے جنہیں شان و شوکت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان میں ملتان کے نواب صادق حسین قریشی کا ”White House“ بہت مشہور تھا صدر ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے دوران نواب صاحب نے جناب بھٹو پر قاتلانہ حملہ کرایا تھا اپنے آخری دور میں بھٹو صاحب نے نہ جانے کس ترنگ میں نواب صادق حسین قریشی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا۔ اس کے بعد بھٹو صاحب کو کسی دشمن کی ضرورت نہ رہی۔ پھر پیپلز پارٹی کو پنجاب میں کبھی اپنا وزیر اعلیٰ نصیب نہیں ہوا۔
حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی رہی ہو یا مسلم لےگ ن کی، اندرون لاہور کے کئی کن ٹٹے لاہور کے ”Posh Area“ میں اپنے اپنے ”White House“ کے صدر ”منتخب“ ہو گئے۔ چودھری محمد سرور نے کرپشن کو معاشرے کا ”ناسور“ قرار دیا ہے لیکن وہ کسی بھی کرپٹ شخص کو ”سوراں دا سور“ کا خطاب نہیں دے سکے۔ گورنر پنجاب نے ”قصر سفید“ اور دوسرے ناموں سے محلات تعمیر کر کے دنیا کے قبرستان آباد کرنے والے حکمرانوں شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی، صدام حسین، حسنی مبارک اور کرنل قذافی کی عبرت کی داستانیں بیان کرتے ہوئے کہا کہ قائد اعظمؒ، علامہ اقبالؒ اور ڈاکٹر مجید نظامی کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس پر مجھے فارسی کے نامور شاعر شیخ سعدی شیرازی (1191ء 1291ئ) یاد آگئے۔ ان کے دور میں ایران کے بادشاہ نوشیرواں کو گزرے سات سو سال ہو چکے تھے جب شیخ صاحب نے کہا تھا کہ....
زندہ است نام فرخ، نوشیرواں بعدل
گرچہ بسے گذشت کہ نوشیرواں نماند
یعنی نوشیرواں کا نام انصاف کی وجہ سے (آج بھی) زندہ ہے اگرچہ بہت زمانہ گزر گیا ہے کہ نوشیرواں نہیں رہا۔ قائد اعظمؒ نے جب مملکت خدا داد پاکستان کے گورنر جنرل کا منصب سنبھالا تو کوئی جائیداد نہیں بنائی بلکہ پہلے سے موجود اپنی جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اسے قوم کے نام کر دیا تھا۔ قائد اعظمؒ کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنے عظیم بھائی کے شانہ بشانہ قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کی تھی لیکن قائد اعظمؒ نے اپنی ہمشیرہ کو حکومت اور مسلم لےگ میں کوئی عہدہ نہیں دیا تھا اور نہ ہی مادر ملت نے کوئی عہدہ طلب کیا تھا۔
مصور پاکستان علامہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تواپنی ضروریات کے مطابق مقدمات لڑتے تھے۔ اضافی مقدمات اپنے دوستوں اور شاگردوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔ محترم مجید نظامی....
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے؟
کی عملی تفسیر تھے انہیں کئی بار پاکستان کی صدارت پیش کی گئی لیکن جناب نظامی نے معذرت کر لی۔ جناب نظامی کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ مسلم لےگ کے نام سے سیاست کرنے والے دھڑے متحدہ مسلم لیگ کی صورت اختیار کر لیں۔ لیکن جناب مجید نظامی اپنی یہ حسرت لے کر خالق حقیقی سے جا ملے دراصل نہ صرف مسلم لےگ کا ہر دھڑا بلکہ ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کی عمارت اپنے طور پر ایک ”White House“ ہے۔ چودھری محمد سرور چونکہ پنجاب کے گورنر ہیں۔ اس لئے لاہور کے وائٹ ہاﺅسز کا تذکرہ کیا ہے حالانکہ کرپشن کی بنیاد پر کھڑے کئے گئے وائٹ ہاﺅسز تو کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں بھی ہیں؟

ای پیپر دی نیشن