کئی بار اکیلے بیٹھ کر اپنے ذہن میں اسلام آباد کے سماجی منظر پر بہت متحرک نظر آنے والے افراد کی فہرست بنانا چاہی تو پچاس کے ہندسے سے آگے بڑھنا مشکل ہو گیا۔ کسی خوش حال آدمی کے ہاں کھانے کی بڑی دعوت ہو تو وہی چہرے نظر آتے ہیں جو سفارت خانوں کی طرف سے ان کے قومی دنوں کے جشن کی تقاریب میں بھی موجود ہوتے ہیں۔
غیبت گوئی کو ایسے لوگ برائی نہیں لطف انگیز مشغلہ سمجھتے ہیں۔ کسی بھی حوالے سے مشہور یا سیاسی اعتبار سے طاقت ور افراد کی ذاتی زندگیوں میں چسکے بھری تفصیلات کی ٹوہ میں رہتے ہیں اور ان تفصیلات کو بڑھاچڑھا کر بیان کرتے ہوئے خود کو انتہائی باخبر ثابت کرنے کی لت میں مبتلا۔
مجھے اس طرح کے لوگوں سے جس انداز کی خبر میں ڈھونڈ رہا ہوتا ہوں کبھی نہیں ملی۔ اس کے باوجو ان کی محافل میں کئی برسوں تک شریک ہوتا رہا۔ لاہور سے آیا پڑھاکو قسم کا نوجوان تھا۔ ایک سادہ طبیعت ماں کی گود میں پلا شرمیلا انسان بھی۔ Bold and Beautiful نوعیت کے کرداروں کے مشاہدے نے لطف دینا شروع کردیا۔ اچانک ایک دن مگر دل بھر گیا۔ اسلام آباد کے سماجی منظر سے بڑی خاموشی کے ساتھ غائب ہونا شروع ہوگیا۔
پنجابی کے ایک محاورے والا چور مگر چوری چھوڑ بھی دے تو کبھی کبھار آنکھوں کے سامنے آئے تالے کو چیک کرلیا کرتا ہے۔ کچھ صورتوں میں معاملہ ”میں تو کمبل کو چھوڑ رہا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا“ والا بھی ہوجاتا ہے۔
اس ساری تمہید کا مقصد آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ اسلام آباد ایک حوالے سے بہت ہی چھوٹا شہر ہے۔ غیبت کے عادی افراد کی وجہ سے اس شہر میں کوئی خبر چھپانا ناممکن ہے اور میں یہاں 1975ءسے ایک متحرک رپورٹر کی طرح رہ رہا ہوں۔ چند دوستوں کا بلکہ اصرار ہے کہ جیسے کچھ افراد کے ماتھے پر حرام کھانا بڑا واضح طورپر لکھا ہوتا ہے اسی طرح خبر کہیں بھی ہو خود اُڑ کر میرے ذہن میں ٹھک سے لگ جاتی ہے۔
وہ شادی جس کا تذکرہ ان دنوں بہت ہورہا ہے، اس کی خبر بھی منظر عام پر آنے سے کئی ہفتے پہلے مجھے مل گئی تھی۔ اس کے انجام کی بھنک اسی وقت پڑگئی جب دو تین ایسے افراد جو چوبیس گھنٹے "Bro"کی اردل میں رہا کرتے تھے بڑے اداس اور پریشان نظر آنا شروع ہوگئے۔ "Hill"پر ان کا داخلہ بند ہوچکا تھا۔ ان کے ٹوٹے دلوں کو تسلی دینے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتاتھا۔ "Hill"پر اپنی بندش کو وہ مگر ذاتی ذلت سمجھ بیٹھے تھے اور جھوٹی سچی کہانیاں سنانے کو بے قرار۔
غیبت مجھے Attractنہیں کرتی۔ انسان کوئی بھی ہو کامل ہو ہی نہیں سکتا۔ بہت سے لمحات ہوتے ہیں جو بہک اور بھٹک جانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ میری اپنی زندگی میں بھی ایسے لمحات بے شمار مرتبہ آئے ہیں۔ کسی اور کے کمزور لمحوں کا ذکر کس منہ سے کروں؟ انٹرنیٹ پر سوار پارسائی فروش میرے بارے میں کچھ جھوٹ اور بہتان انتہائی ڈھٹائی سے پھیلاتے رہے ہیں۔ ان کے رویے سے چراغ پا ہوکر کبھی پارساﺅں کے محبوب کو آئینہ دکھانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
جو ہوا بُرا ہوا۔ مگر اس رشتے کی تعمیر کے مراحل میں خامی کوئی اتنی چھپی ہوئی بھی نہ تھی۔ درخواست اب اتنی ہے کہ اپنے ”محبوب“ کے دفاع میں اس حد تک نہ چلے جائیں کہ دوسرا فریق پھٹ پڑے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجاکرتی ہے۔ ٹالسٹائی نے اپنے شہرئہ آفاق ”اینا کرینینا“کی ابتداءمیں ہی بیان کردیا تھا کہ مطمئن جوڑوں کی داستان ایک جیسی ہوتی ہے مگر ہر ٹوٹے ہوئے بندھن کی وجوہات اور تفصیلات اپنی نوع میں منفرد ہوا کرتی ہیں۔ ٹالسٹائی نے اینا کی غیر مطمئن زندگی کی تفصیلات کو بیان کرنے کے لئے ایک ضخیم ناول لکھ ڈالا۔ ہر حوالے سے انتہائی کامیاب زندگی گزارنے کے باوجود ایک قصباتی ریلوے اسٹیشن پر بالکل اکیلے بیٹھا اس دُنیا سے رخصت ہوگیا۔ زندگی جیسی بھی ہے بس گزارلی جائے تو بہتر ہے۔ اس گورکھ دھندے کی جانچ پڑتال کا کوئی فائدہ نہیں۔
میری بڑی خواہش تھی کہ پوری توجہ پنجاب اور سندھ کے چند اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے مرحلے پر مبذول رکھتے ہوئے ”یہ ہنگامہ اے خدا کیاہے“ والے سوالات اٹھائے جاتے۔ حقیقی جمہوریت کا قیام اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ہمارے حکمران طبقات مگر خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو اپنے حصے کے اختیارات میں سے تھوڑا سا حصہ بھی بانٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ جو بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں انہیں سیاست دانوں نے خوش دلی سے قبول نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے یہ انتخابات ان پر مسلط کئے تھے اور ان کے انعقاد سے قبل ہر صوبائی حکومت نے بہت مکاری اور ڈھٹائی سے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ گلی محلوں کے نمائندوں کے پلے اختیارات کے حوالے سے کچھ بھی نہ ہو۔ پھنے خانی کے چند کھلونے ہیں جنہیں دکھاکر سیاسی کارکنوں کو بہلادیا گیا ہے۔ میرے جیسے لکھاریوں کا فرض تھا کہ ہم ان کھلونوں کی حیثیت کو بے نقاب کرتے۔ ہم نے اپنا فرض ادا نہیں کیا اور حکمران اپنا داﺅ لگاگئے۔
بلدیاتی انتخابات ہی کے حوالے سے شدید دُکھ نیا پاکستان بنانے کی دعوے دار جماعت کے ایک راہ نما کے کردار پر بھی ہورہا ہے۔ موصوف تواتر کے ساتھ ہم دیسی اُردو میڈیم لوگوں کو بڑی رعونت سے یاد دلاتے رہتے ہیں کہ انہوں نے سیاست کا ہنر پارلیمانی جمہوریت کے حتمی ماخذ یعنی برطانیہ سے سیکھا ہے۔ ان کے ہنر کے بہت چرچے ہیں۔ اگرچہ اکثر یہ سوال بھی ذہن میں اُمڈ آتا ہے کہ اگر وہ اتنے ہی باہنر تھے تو ”مادرِ جمہوریت“ کہلاتے ملک میں ہی مقیم رہتے ہوئے کسی روز وہاں کے پہلے ایشیائی وزیر اعظم کا اعزازحاصل کرکے تاریخ بناتے۔ اوبامہ نے اپنے ہنر اور لگن سے امریکہ میں تاریخ بنائی ہے۔ اب شاید ہیلری کلنٹن اس ملک کی پہلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرلے۔
ہمارے ”باہنر“ رہ نما جو ٹیکنالوجی لائے ہیں وہ پنجاب کو 2015ءکے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھانے کی بجائے اس ”شریکوں“ والے سماج کو برادری کی سیاست میں الجھانے کا جنون ہے۔ حیرت اور پریشانی ہوتی ہے کہ برطانیہ سے آئے اس ہنر مند شخص کا برادری ازم، پاکستان، یورپ اور امریکہ کی نامور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل معمارانِ نیا پاکستان کو نظر ہی نہیں آرہا۔
چسکے بھری غیبتوں اور گلیمر سے جڑی داستانوں کی بنیاد پر توانا اور جاندار سیاسی عمل متعارف نہیں کروایا جاسکتا اور پاکستان کو آگے بڑھانے کے لئے اس وقت اس عمل کی شدید ضرورت ہے۔ اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ ورنہ ....”ورنہ“ ہوکررہے گا۔