لاہور (سید شعیب الدین سے) پنجاب اور سندھ کے انتخابات نے زمینی حقائق کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ جہاں یہ دعوے کئے جارہے تھے کہ پنجاب میں ”سونامی“ مسلم لیگ (ن) کا صفایا کردیگا اور پی پی پی اندرون سندھ بھی ملیامیٹ ہوجائیگی مگر ایسے سبھی دعوے، اندازے اور تجزیئے غلط ثابت ہوگئے۔ 2013ءکے الیکشن کے بعد تحریک انصاف نے جس طرح دھرنا سیاست کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کرایا، اسکے بعد ضمنی انتخابات، کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات اور پھر بلدیاتی انتخابات نے ثابت کردیا کہ صرف دھاندلی کو لے کر مسلم لیگ (ن) کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے نتائج بھی اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔ یہ بلدیاتی نمائندے مسلم لیگ (ن) کی 2018ءکے انتخابات میں بھی کامیابی کی راہ ہموار کریں گے۔ فوج کیساتھ مسلم لیگ (ن) کے تعلقات کار ایسے ہیں کہ کسی شب خون کی گنجائش نہیں۔ تحریک انصاف کا بلدیاتی انتخابات میں جس طرح صفایا ہوا اسے پیپلز پارٹی کی ہزیمت کے بعد دوسری اہم سیاسی پیشرفت کہا جاسکتا ہے۔ نئے منظرنامہ میں تحریک انصاف خیبر پی کے، پی پی پی سندھ اور مسلم لیگ (ن) پنجاب تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ شفقت محمود نے مستعفی ہونے کا جو فیصلہ کیا اس نے اعلیٰ سیاسی روایت کو جنم دیا تاہم انکی پارٹی قیادت نے ایک کے بعد دوسری غلطی کرکے اپنی تباہی کا سامان خود پیدا کیا۔ عبدالعلیم خان کو این اے 122 میں امیدوار بناکر عمران خان نے پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ عمران خان خود 11 اکتوبر سے ایک دن پہلے کسی واضح جواز کے بغیر لاہور کو خیرباد کرکے بنی گالہ جابیٹھے۔ اپنے ذاتی مفاد کا تحفظ ضروری سمجھا جس کے نقصانات سامنے آگئے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق جتنے ووٹوں سے عبدالعلیم خان کو شکست ہوئی، پولنگ کے دوران عمران خان چار پولنگ سٹیشنوں کا دورہ کرلیتے تواس سے کہیں زیادہ ووٹ ملتے۔ عبدالعلیم خان کو بھی اسکا قلق تھا۔ انہوں نے ردعمل میں اس کا اظہار بلدیاتی انتخابات میں خاص دلچسپی نہ لیکر کیا ہے۔ دوسری طرف سندھیوں نے ایک بار پھر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قبروں سے عقیدت اور وفاداری ثابت کی۔ پی پی پی کی اس کامیابی کو کسی صورت پارٹی قیادت کی کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا، تاہم پنجاب میں جہاں مقامی قیادت نے ورکرز سے مسلسل رابطہ رکھا وہاں پارٹی کی کارکردگی بہتر رہی جس کی واضح مثال لالہ موسیٰ ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ ڈھائی سال میں مسلم لیگ (ن) دیگر صوبوں اور خاص طور پر پنجاب کے ان علاقوں میں جہاں ابھی بلدیاتی انتخاب کا مرحلہ باقی ہے، اپنی پوزیشن بہتر کرنے کی سرتوڑ کوشش کریگی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے رویوں سے اپنی پوزیشن مضبوط کرتی ہے یا اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ آصف زرداری کو چاہئے کہ وہ ”بیک سیٹ“ سنبھال کر بلاول اور آصفہ کو پارٹی کے امور سے متعلق فیصلوں کا اختیار دیں۔ فریال تالپور کے محدود کئے گئے اختیار کو بھی ختم کریں۔ بلدیاتی انتخابات میں جس طرح انگلیاں اٹھائی گئی ہیں، اسکے بعد باقی مراحل میں جس طرح ضلعی انتظامیہ، ریٹرننگ افسر اور پولیس اپوزیشن کا نشانہ ہوگی، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔