مکرمی :قیام پاکستان سے آج تک ہماری معیشت بیرونی ممالک اور ایجنسیوں سے لئے گئے قرضوں پر چلائی جا رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ قرضوں کاحجم بڑھتا جا رہا ہے۔ جو حکومت اقتدار میں آتی ہے وہ سابقہ حکومت کو سارے اللوں تللوں کا ذمے دار ٹھہراتی ہے اور بعد میںخود بھی اسی راستے پر چلنا شروع کر دیتی ہے۔ ترقیاتی مقاصد کے لئے لئے قرضے تو قابل فہم ہیں لیکن غیر ترقیاتی مقاصد میں استعمال ہونے والے قرضے اور گرانٹس وسائل کے بے جا اسراف کے زمرے میں آتے ہیں ۔ ماہرین اقتصادیات آئے دن ڈگمگاتی معیشت اور اس کے اسباب پر مختلف تجزیے پیش کرتے رہتے ہیں لیکن کسی بھی ایسے ماہر یا سکالر نے یہ تجزیہ پیش کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وقتاً فوقتاً لئے جانے والے بھاری رقوم کے قرضے کسی حد تک مقررہ اہداف کے حصول میں کامیابی سے صرف ہوئے ہیں اور کسی حد تک ان اہداف کے حصول میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کیوں؟ اس طرح کی ایکسر سائز کا کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ تاکہ قوم جان سکے کہ جن قرضوں کے باعث روز افزوں بڑھتے ٹیکسوں اور مہنگائی نے ان کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے ان کی حقیقت کیا ہے اور ایسے قرضے قومی خوشحالی کے کن کن اہداف کے حصول میں صرف کئے گئے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئیے کہ اس طرح کے حقائق خود حکومت عوام کو بتائے لیکن ایسا نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ آئندہ اس کی توقع ہے لہذا ہماری چیرمین پی اے سی سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے کو نوٹس لے کر اس کے حقائق عوام تک پہنچانے کا اہتمام فرمائیں یہ بڑی قومی خدمت ہو گی۔ ( شرافت ضیاءاسلام آباد)
غیرملکی قرضے اور ان کامصرف
Nov 02, 2016