دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دیں

Nov 02, 2016

امیر محمد خان

قومی سلامتی کے معاملے میں برخواستگی، استعفے عوام کیلئے یقینی طور پر ایک بہت بڑی خبر ہے، جو موجودہ صورتحال میں میاں نوازشریف کی حکومت کیلئے نقصان دہ ہے۔ تمام تر مالی معاملا ت پر لگائے گئے الزامات کو ایک طرف رکھتے ہوئے جوصرف مفروضوں پر مبنی اور سیاسی پروپگنڈہ ہے میاں صاحب کے محب وطن ہونے پر کوئی سوال نہیں ہو سکتا نیز اپنے قریب ترین وزیر کی برطرفی یا استعفی میاں صاحب کا قابل تعریف عمل ہے کہ اس معاملے میں کسی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ جہاں اورجس پر شک ہوا وہا ں ایکشن کیا ، ابھی یہ سلسلہ رکا نہیں تحقیقات اور گرفتاریاں متوقع ہونگی اس میں بھی یقین ہے کہ میاں صاحب کبھی رکاوٹ نہیں بنیں گے یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ لوگ جو انتہائی اہم خبراور پاکستان کی سیکورٹی کو نقصان پہنچانے والے افراد میا ں صاحب کے دائیں بائیں کس طرح موجود تھے؟
یوں تو اس طرح ملک کی کئی سیاسی جماعتیں اور ماضی میں کچھ شخصیات ملکی سالمیت پر دھبہ رہی ہیں اور بہ حفاظت ملک سے باہر بھیج دی گئی ہیں اور جہاں وہ عیش ہی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف ہونے والی کئی کاروائیوں میں ملوث ہیں۔ گزشتہ دو دنوں سے مجھے اور کشمیری مجاہدین کو بہت شرمندگی کا سامنا ہے کہ پاکستان جسے کشمیری عوام اپنے لئے سفارتی کوششیں کرنے والا مرکزی ملک قرار دیتے ہیں۔ پہلے یہ کام سندھ کی ایک جماعت کے حوالے تھا کہ جب بھی کشمیر کا کوئی دن آئے ، اس دن یا اس کے قریب ترین دن پاکستان میں ایسا کام کیا جائے کہ عالمی میڈیا اور دنیا کوپاکستان میں ہونے والے مظاہرے اور دیگر معاملات سے توجہ ہٹ جائے اور مسئلہ کشمیر، کشمیر پر ہونے والے ظلم ، کشمیر کے دن کی مناسبت سے بچوں کو کچھ نہ بتایا جا سکے بلکہ وہ سیاست دانوں کی اخلاق سے گری زبان میں ایک دوسرے پر الزام در الزام دیکھیں قومی سلامتی سے متعلق خبر کے حوالے سے تشویش اور تادیبی اقدام نہایت ضروری ہے، کہا یہ گیا کہ ایک غلط خبر باہر دی گئی جو قومی سلامتی کیلئے نہات قابل اعتراض ہے اور واقعی اس طرح کی خبر سے ہمارے دشمنوں کو تقوعیت ملتی ہے، جس نے بھی یہ کام کیا وہ نہائت ہی قابل مذمت ہے ، مگر ان کا کیا کیا جائے جو غیر صحافی قسم کے اینکرز کچھ چینلز پر بیٹھ کرتمام تر زور لگا کر اسطرح کی باتیں کرتے ہیں جیسے انہیں سب کچھ پتہ ہو ، ہر خبر کا سلسلہ وزیراعظم کی برطرفی پر جاکر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔
بہرحال امید ہے کہ عسکری قیادت اور سیاسی قیادت اس معاملے کو ملکی مفاد میں بہتر انداز میں حل کرلے گی، میاں نواز شریف کو عزم کرنا چاہئے کہ عسکری قیادت کے اعتماد کیلئے اور تعاون کرتے ہوئے کسی بھی شخص کو جو تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئے اسے سزا کا حقدار ہونا چاہئے چونکہ اس وقت وطن عزیز نہ صرف دہشت گردی سے بہادرآنہ طور پر نبردآزما ہے نیز عزیز ترین دوست چین کی جانب سے جاری عظیم منصوبے جاری ہیں اور پاکستان کے دشمن ہمارے ہی لوگوں کے ذریعے دھرنہ ڈرامہ کر رہے ہیں تاکہ ان پراجیکٹ میں تاخیر ہو سکے جو کہ گزشتہ دھرنوں میں پہلے تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں ۔ پاکستان عوامی لیگ کے سربراہ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں میں اپنا قریبی دوست تصور کرتا ہوں، 28 اکتوبر کو جو کچھ راولپنڈی میں ہوا وہ اسلئے اچھا تھا کہ اس دن علم ہوا کہ شیخ رشید کی عوامی لیگ کے کارکن بھی ہیں، کیونکہ خبروں میں آرہا تھا کہ عوامی لیگ کے کارکن بھی گرفتار ہوئے جبکہ محترم شیخ رشید جب ڈرامائی انداز میں موٹر سائیکل پر آئے تو موٹر سائیکل تحریک انصاف کا شخص ہی چلا رہا تھا۔ کارکن وہاں بھی موجود نہ تھا ۔ بہر حال کچھ بھی ہوا شیخ رشید نے بہادرانہ کام کیا جبکہ حکومت کے پروگرام میں انکی گرفتاری کہیں شامل نہ تھی جس وقت شیخ رشید اپنے وعدے کی پاسداری کررہے تھے اسوقت تحریک انصاف کے سینئر رہنماء بنی گالہ میں عمران خان سے گلہ کر رہے تھے کہ انہوں نے شیخ رشید سے لال حویلی جانے کا وعدہ کیوںکیا ؟ ۔میاں صاحب کی حکومت اس بات کا خاص خیال رکھے ماضی کی تحریکوں کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اگر احتجاجی معالات ہوںتو نوکر شاہی پر خاص توجہ دیں چونکہ نوکر شاہی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار ہوتی ہے اور وہ کچھ ایسے کام کردیتی ہے جسے بھگتنا حکومت کو ہے ۔ اس سلسلے میں چوہدری نثار صاحب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کوئی ایسا اقدام نہ ہو کو تحریک انصاف کا کیا عوام کو بھگتنا پڑے ۔

مزیدخبریں