کچھ عرصہ پہلے میں نے عشرت العباد اور حقوق العباد کے نام سے کالم لکھا تھا اور آج دوسری مرتبہ چودہ سالہ عشرت العباد کی مسلسل عیش و عشرت پر لکھنے کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، سیدمصطفی کمال کا کمال فن ہے کہ انہوں نے مہر بہ لب جن کے بارے میں سیانے کہتے ہیں کہ لب کشائی سے ہی کسی کی شخصیت کے اسرارورموز سامنے آتے ہیں بقول نصرت جاوید کوسنے دینے پر مجبور کیا اور یوں ہمیں اب سمجھ آئی کہ مجرموں کے منہ پر پردہ کیوں ڈالا جاتا ہے۔ گورنر کا انتخاب ہمیشہ صدر، وزیراعظم کی مرضی سے سے کرتا ہے اور گورنر کو اگر استعفی دینا ہو تو وہ بھی گورنرکو ہی بھیجتا ہے۔ گو صوبے کی کابینہ اوروزیراعلی سے مشاورت کے بعدہی گورنر اپنی راہ عمل متعین کرتا ہے۔ مصطفی کمال نے جب دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تو افکار تازہ کی مہک نے پیازوںکی تہہ در تہہ بناوٹ کی قلعی کھول کر رکھ دی۔
دور مشرفی، دور زرداری، دور شریفانہ، یعنی سول سے فوجی دور کے آمروں نے آخر کس مجبوری کے تحت ملزم کو مسند اقتدار پر بٹھایا، ظاہرہے۔ الطاف سے تعلق خاص سے انہیں مراعات یافتہ بنایا تاکہ وہ بھی وفاق پہ بیساکھی بہیمانہ کے سہارے اپنی گرفت مضبوط کر سکیں اور یہی ہر حکمران کی سرشت ہوتی ہے کہ وہ حق استثنی رکھتے ہوئے حقوق العباد کے پردے میں عشرت العباد کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتاہے اوروہ دین و ہنر کی تخصیص و تاویل کی اقبال کی تشرع کے معنی و مطالب کو سمجھنے سے قاصر ہو جاتاہے کہ …؎
سرود و شعر و سیاست، کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ !
غالباً غلام حیدر وائیں پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور گورنر میاں اظہر تھے جوکہ میاں نواز شریف کے دیرینہ دوست اور رفیق تھے، ان تعلقات خاص کی بنا پر انہیں گورنر بنایاگیا تھا۔ مگر انہوں نے عشرت العباد والا کام شروع کر دیا اور صوبے کے نظم و نسق میں عملاً فعال ہو کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا کام شروع کر دیا جو شاہد وزیراعلیٰ کو اچھا نہیں لگا اور یوں بالآخر انہیں مستعفی ہونا پڑا اور اس طرح کے رفیق خاص بھی رفیق کار نہیں رہتے اور اس بات کو شاید رفیق رجوانہ بھی سمجھ گئے کیونکہ ان کا انداز عمل اور کردار و گفتار بھی نہایت شریفانہ و مدبرانہ ہے۔
بات ہو رہی تھی عشرت العباد کے فرائض منصبی کی۔ دوہری شہریت کے داغدار ایسے گورنر ہیں کہ انہوںنے صوبے میں متوازی حکومت قائم کرکے ایک نئی مثال رقم کی ہے۔ ان کی مداخلت بے جا، شاید قابل برداشت ہی رہتی۔ مگر پاک سرزمین پہ شاید ایسا ممکن اس لئے نہیں کہ گورنر کبھی تو بلدیات کے اور کبھی کسی اور محکمے کے فنڈز کھلواتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ایسے اقدامات ان کے صوابدیدی اختیارات کی حدود سے بھی متجاوز ہیں اور پتہ یہ چلا کہ بعدمیں یہ فنڈز دہشت گردی میں استعمال ہوتے تھے۔اللہ تعالی ظالموںکی رسی دراز ضرور کرتا ہے اور خون بھی ایک نہ ایک دن ضرور بولتا ہے اور حکیم سعید کا خون ناحق بھی کسی کے منہ سے کلمہ حق ضرور کہلوائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ متانت، سنجیدگی اور بردباری کا لبادہ پھر اوڑھ لیا گیا ہے۔ مگر ان عارضی تحفظات سے تحفظ منصب کس طرح ممکن ہے؟ کیونکہ گھر کے بھیدی اگر لنکا ڈھا دیں تو پھر چپ لگ جاتی ہے اور چاپ کی صدائوں پہ چپ چاپ رہ کر چلنے کی کوشش کی جاتی ہے معرفت حق کی سُدھ بُدھ اور بالوں میں جب سفیدی آ جاتی ہے تو اعمال ماضی پہ گریہ زاری و آہ و بکا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور بالوں کی چاندنی، سونے، چاندی اور چمک کو محض چشم پرنم بنا کر چندھیا دیتی ہے اور پھر بقول مظفر شاہ کہ سفر آخرت پہ بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔…؎
فکر امروز میں رہے غلطاں
کار فردا پہ کیا نظر کرتے
دشت و صحرا میں بے سروساماں
ہم تھے مجبور، کیا سفر کرتے!