’’جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے‘‘

کہتے ہیں تعصب اور حسد دو ایسی بیماریاں ہیں جو اچھے بھلے انسان کو پاگل پن کی حد تک پہنچا دیتی ہیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ انہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ آپ میاں مٹھو بننے کی کوشش کرتے ہیں مگر پاکستان کے فوج کے افسروں میں ان کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے۔ دوسروں کو برا کہنے سے انسان خود بڑا انسان نہیں بن جاتا ہے۔ میں اور میرا خاندان ہمیشہ پاکستان کے ایک سپاہی سے لے کر جرنیلوں تک ہر ایک کی عزت کرتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے غازی یا شہید بن کر اپنا آج ملک اور قوم کے کل کے لئے قربان کیا ہے۔ افسوس کہ مرزا اسلم بیگ نے اپنی ملازمت کے دور میں ایسے کام کئے جس کی وجہ سے ان کی کوئی عزت نہیں رہی۔ ضیاالحق مرحوم کی شہادت پر ہزاروں انگلیاں ان کی طرف اٹھتی رہیں وہ تو صدر اسحاق خان نے آئینی طور پر پاکستان کو آگے بڑھایا ورنہ یہ حضرت تو مرحوم ضیاالحق کی جگہ لینے کیلئے مرے جارہے تھے۔ آج تک اسلم بیگ کے بارے میں کسی تجزیہ نگار نے کبھی تعریف نہیں کی، اکثر خود میاں مٹھو اپنی تعریف فرماتے رہتے ہیں۔ ہر اچھے انسان پر دستام ترازی اور جھوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں۔ کل ان حضرت نے ایئرمارشل اصغر خان جیسے انسان جس کی تمام دنیا تعریف کرتی ہے اُن پر انگلی اٹھانے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصغر خان صاحب نے ان کو ان کا مکروہ چہرہ دکھایا ہے۔ کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے انشاء اللہ اس شخص کو سزا ضرور ملے گی۔
65ء کی جنگ سے چند ماہ پہلے اصغر کان صاحب ایئرفورس سے ایٹائر ہوئے تھے اور ان کو P.I.A کا ہیڈ بنایا گیا تھا یہ وہ ایئرفورس تھی جس نے 65ء کی جنگ میں دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے تھے پوری دنیا پاکستان کی ایئرفورس کی تعریف کرتے نہیں تھکتی۔ اسلم بیگ تم نے اُس شخص پر دشمن کے سازباز کرنے کا الزام لگایا جس نے نہ صرف پاکستان کی ایئرفورس کو ناقابلِ تسخیر بنایا بلکہ جنگ کے دوران ایوب خان نے ان کو چین، ایران، ملیشیا، انڈونیشیا اور دوست ممالک میں سفیر بنا کر بھیجا کہ اُن ملکوں سے مدد لے کر آئیں۔ ہمارے دوست ملکوں نے اصغر خان کو کہا کہ آپ ہمارے ملک کی حفاظت کیلئے کچھ اسلحہ چھوڑ دیں اور باقی سب کچھ لے جائیں۔ شرم کی بات ہے یہ کہنا کہ اصغر خان کو دشمن کے ساتھ سازباز کرنے پر نکالا گیا؟جہاں تک 1977ء کی موومنٹ کا تعلق ہے جس خط کا آپ ذکر فرما رہے ہیں وہ خط ایئرمارشل صاحب نے خود اپنی کتاب میں تحریر کیا ہوا ہے۔
اگر آپ کی آنکھیں ٹھیک ہیں تو پڑھ لیں وہ خط انہوں نے اُس وقت لکھا تھا جب مال روڈ پر جلوس میں دو نوجوانوں نے وکٹری کا نشان بنایا تھا اور ایک کیپٹن نے اُن پر گولی چلا دی تھی۔ اصغر خان نے ضیاالحق کو لکھا کہ آپ کو لوگوں کے ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کو روکنے کا حق نہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ فوج کو غیرآئینی قدم اٹھانے کا حق نہیں ہے۔اب میں آپ کو آئینہ دکھانا چاہتی ہوں۔ آپ نے اپنے ایک وزیر ’’مصطفیٰ صادق‘‘ صاحب مرحوم کو جن کو ضیاالحق نے وزیر بنایا تھا سیاستدانوں سے ملنے جلنے کیلئے آپ نے مصطفیٰ صادق صاحب سے کہا کہ وہ آپ کی ملاقات ایئرمارشل اصغر خان سے کروا دیں۔ مصطفیٰ صادق صاحب ’’وفاق‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ اُن سے میرے خاندانی تعلق بھی تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ کسی طرح آپ ایئرمارشل صاحب کو اسلم بیگ سے ملاقات پر راضی کروا دیں۔ میں نے خورشید محمود قصوری صاحب کو بتایا کہ اسلم بیگ ایئرمارشل سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اور خورشید قصوری صاحب نے بڑی مشکل سے ایئرمارشل کو ملاقات کیلئے راضی کیا۔ وہ نہیں مان رہے تھے۔ جب مصطفیٰ صادق صاحب مرحوم کے ساتھ آپ سے ملنے گئے تو آپ نے ایئرمارشل کو کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مسلم لیگ کے صدر بن جائیں کیونکہ نواز شریف اس قابل نہیں کہ وہ پی پی پی کو ہرا سکیں۔
ایئرمارشل نے آپ کو صاف جواب دے دیا کہ میں ضیاالحق کی لیگ کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اس کے بعد آپ نے PNA کے لوگوں جس میں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر اسد درانی کے ساتھ مل کر رقم تقسیم کی، یہ کیس ایئرمارشل اصغر کان نے آپ پر کیا ہوا ہے۔ اس لئے آپ اصغر خان کے بارے میں ایسی غلط باتیں منسوب کر رہے ہیں۔ افسوس آج پھر آپ نواز شریف جن پر کرپشن کا الزام ہے ان کی طرف داری کر رہے ہیں اور عمران خان جیسے محب وطن انسان پر تہمت لگا رہے ہیں۔ مگر اس ملک میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ان واقعات کے گواہ ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...