علامہ اقبال کے تمام افکار و نظریات کا مرکز و محور اسلام ہے۔ اقبال کے نزدیک اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جو بذریعہ وحی الٰہی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ اس کا دنیا میں ابلاغ نبی اکرم کے وسیلہ جلیلہ سے عمل میں آیا۔ اسلام زندگی کے تمام معاملات پر محیط ہے۔ اس میں سیاسی‘ اخلاقی‘ قانونی‘ اقتصادی‘ تعلیمی‘ تجارتی‘ عسکریت‘ عدالتی اور ہر طرح کے انفرادی اور اجتماعی امور و معاملات شامل ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں: اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو نسبت انگلستان کو انگریزوں سے اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے‘ وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے۔ (ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر 18۔)
اقبال کے نزدیک اسلام تمام عالم انسانی کیلئے ایک دستور حیات ہے۔ ”اسلام عقائدہی مذہب نہیں۔ اس کا منتہائے مقصود یہ ہے کہ نوع انسانی ایک گھرانا اور ایک خاندان بن جائے۔“ (گفتار اقبال 455) اسلام نے جو فرائض و ارکان یا طریق عبادات مقرر کئے ہیں ان سب کا مدعا یہ ہے کہ انسانی قلوب کو رنگ‘ نسل اور قوم کے امتیازات سے پاک کر دے۔ اقبال کے نزدیک اسلام کے دو اساسی ارکان ہیں‘ رکن اول توحید اور رکن دوم رسالت ہے۔ توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ایک ہے‘ وہ پاک ہے۔ اسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں‘ وہ سب کا خالق‘ مالک اور پروردگار ہے۔ تمام کائنات میں وہی ایک حکمران ہے۔ اسکے سوا کوئی فرد یا گروہ حکومت کا حق نہیں رکھتا۔ سوائے اللہ کے کسی کا حکم نہیں۔ حکم اللہ کیلئے ہے جو عظمت والا ہے۔ اس حوالے سے اقبال نے کہا
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی‘ باقی بتان آزری
توحید کی تعلیم اور تاثیر سے فرد صفات الٰہیہ سے متصف ہوکر یکتا بن جاتا ہے۔ اسکی شخصیت میں یکتائی اور انفرادیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ دوسرے انسانوں کیلئے رحمت اور شفقت کا باعث بن جاتا ہے۔ توحید کا نقش دل سے خوف اور حزن کو جوکہ ام الخبائث ہیں‘ دور کر دیتا ہے۔
وحدت انسانی کا تصور بھی عقیدہ توحید سے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی سب لوگ ایک ہی خالق کی مخلوق ہیں۔ ان کی تخلیق کی ایک ہی اصل ہے۔ اسود و احمر اور عرب و عجم میں کوئی فرق نہیں۔ اقبال عقیدہ توحید کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اسلام بحیثیت ایک نظام سیاست کے اصول توحید کو انسانوں کی جذباتی اور ذہنی زندگی میں ایک زندہ عنصر بنانے کا عملی طریقہ ہے۔ اس کا مطالبہ وفاداری خدا کیلئے ہے نہ کہ تخت و تاج کیلئے اور چونکہ ذات باری تعالیٰ تمام زندگی کی روحانی اساس ہے اس لئے اسکی اطاعت کا درحقیقت یہ مطلب ہے کہ انسان خود اپنی ہی فطرت صحیحہ کی اطاعت کرتا ہے۔ (تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘ انگریزی 227۔)
اللہ تعالیٰ کی حکومت میں کسی کے حکم کو شریک نہیں کیا جا سکتا کہ فرمایا : ولا یشرک فی حکمہ احدا (26:18) وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا نہ کسی غیر اللہی طاقت سے کوئی راضی نامہ کیا جا سکتا ہے۔ توحید کا اصول قطعی ہے۔ اقبال کے الفاظ میں: ”اسلام ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کے کسی اور آئین سے کسی قسم کا راضی نامہ یا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ ہر دستور العمل جو غیراسلامی ہونا معقول و مردود ہے۔“ (مقالات اقبال 264۔) صرف دین اسلام ہے جو ایک قوم کو اسکے صحیح ثقافتی اور سیاسی معنوں میں سہارا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کھلم کھلا اعلان کرتا ہے کہ اسلام کے علاوہ اور کوئی نظام ہے تو اسکی مذمت کی جائے اور اسے مسترد کر دیا جائے۔ (تقریریں تحریریں اور بیانات 348۔)
اقبال کے نزدیک اسلام کا دوسرا اہم رکن رسالت ہے۔ مسلمانوں کا قومی وجود مکمل طورپر رسالت سے ہے۔ فرماتے ہیں:
”ہمارے عقیدے کےمطابق بحیثیت ایک مذہب کے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو وحیاً نازل کیا‘ لیکن معاشرے یا ملت کے طورپر اسلام کا وجود کلیتاً رسول اکرم کی ذات بابرکات کا رہین منت ہے۔ (تقریریں‘ تحریریں 238۔) اس طرح ہمارا وجود ہمارا دین اور ہمارا آئین مکمل طورپر رسالت محمدیہ کا نتیجہ ہے ....
از رسالت در جہاں تکوین ما
از رسالت دین ما آئین ما
توحید کی نشراشاعت رسالت کے ذریعہ ہوئی ہے لہٰذا نبی کریم کا اسوہ¿ حسنہ توحید کی بہترین تفسیر اور مسلمانوں کی زندگی کیلئے بہترین نمونہ ہے۔ مسلمانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کیلئے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو‘ وہ ہر وقت انکے سامنے رہے۔ چنانچہ مسلمانوں کیلئے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ اسوہ¿ رسول اللہ کو مدنظر رکھیں تاکہ جذبہ تقلید اور جذبہ عمل قائم رہے۔ “ (مقالات اقبال : 237۔) اسلام میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے استحکام کیلئے نبی اکرم کی سیرت و سنت سے بہتر کوئی نسخہ نہیں۔ آپ نوع انسانی کیلئے صبروتحمل‘ محبت و رحمت‘ شوکت و شجاعت‘ عفو و درگزر‘ احترام و روادری‘ عزت نفس اور تزکیہ نفس کا بہترین نمونہ ہیں۔ اقبال کے نزدیک درحقیقت آپ کی زندگی ہی دین ہے۔
بہ مصطفی برساں خویش دین ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی ست
نبوت محمدیہ کا سب سے بڑا کارنامہ تکمیل اخلاق ہے چنانچہ نبی کریم نے فرمایا: میں حسن اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر دین اسلام کو مکمل کر دیا لہٰذا آپ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل طورپر ختم ہو گیا۔ آپکے بعد نہ کوئی نبی آسکتا ہے اور نہ ہی کسی وحی و الہام کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ اقبال نے کہا: ”وہ اجتماعی اور سیاسی تنظیم جسے اسلام کہتے ہیں مکمل اور ابدی ہے۔ محمد کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ہے۔ جو شخص ایسے الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے۔“ (تقریریں‘ تحریریں 250۔) اقبال نبی کریم کے اعلیٰ اخلاقی محاسن اسرار خودی کے آغاز میں یوں بیان کرتے ہیں:
نبی کریم کی محبت سے دل قوت حاصل کرتا ہے۔ آپ معمولی چٹائی پر سوتے تھے‘ لیکن آپ نے اپنی اُمت کو تخت کسریٰ پر بٹھایا۔ آپ نے استحصالی قوتوں کی نسلو ںکو ختم کیا اور دنیا کو ایک نیا زندگی بخش آئین عطا فرمایا۔ آپ نے دین کی حکمت سے امت پر دنیا کے دروازے کھول دیئے۔ مادرگیتی نے آج تک آپ جیسا کسی کو پیدا نہ کیا۔ آپ نے امیر و فقیر کو یکساں حیثیت عطا فرمائی اور اپنے غلام کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ آزادی کا درس آپ ہی نے دیا اور آپ ہی نے سرداروں‘ جابروں اورر کاہنوں سے انسان کو آزاد کیا۔ نبی کریم کی ذات گرامی قدیم و جدید حقائق کا بہترین امتزاج اور مظہر ہے۔ اس حوالے سے اقبال رقمطرازہیں: ”پیغمبر اسلام کی ذات گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ کی ہے۔ بہ اعتبار اپنے سرچشمہ وحی کے آپ کا تعلق دنیائے قدیم سے ہے‘ لیکن بہ اعتبار اسکی روح کے دنیائے جدید سے۔ یہ آپ ہی کا وجود ہے کہ زندگی پر علم و حکمت کے تازہ سرچشمے منکشف ہوئے جو اسکے آئندہ رخ کے عین مطابق تھے۔ لہٰذا اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا۔ اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان اپنے سہاروںپر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اسکے شعورذات کی تکمیل ہوگی تو یونہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ یہی وجہ کہ اسلام نے اگر دینی پیشوائی کو قبول نہیں کیا یا موروثی بادشاہت کو جائز نہیں رکھا یا بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا یا عالم فطرت اور عالم تاریخ کو علم انسانی کا سرچشمہ ٹھہرایا تو اس لئے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ مضمر ہے کیونکہ یہ سب تصور خاتمیت ہی کے پہلو ہیں۔ (تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘ 194-193۔)
فکر اقبال کا اہم ترین موضوع
Nov 02, 2016