’’جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی‘‘

کل کے روزنامہ نوائے وقت میں خبر تھی کہ کسان اتحاد نے میاں شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ یہ کونسا کسان اتحاد ہے جس نے شکریہ ادا کیا ہے۔ حکومت وقت کی کسان پالیسی تو کسان دوست نہیں ہے۔ایوب کے زمانہ میں ایک ایوب ریسرچ سنٹر ہوا کرتا تھا جس کا کام زراعت پر ریسرچ کرنا ہوتا تھا۔ کسان کے لئے مختلف اقسام کا بیج تیار کیا جاتا S.A73 گندم کا بیج اس ریسرچ سنٹر نے نکالا تھا جس سے گندم فی ایکڑ 70 من نکلا کرتی تھی۔ اسی طرح کپاس کا بیج نکالا تھا جس سے کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں کافی اضافہ ہوا تھا۔ گنے کا بیج بھی اسی ایوب سنٹر نے نکالا تھا جس سے گنے کی پیداوار میں اضافہ ہوا تھا۔ اب ایوب ریسرچ کو فنڈ ہی نہیں دیئے جاتے جس کی وجہ سے کوئی نیا بیج کسی اقسام کا پیداوار فی ایکڑ بڑھانے کیلئے دستیاب نہیں۔ 

حکومت جتنے زرعی پیکیج دیتی ہے اس میں کسان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا البتہ جو بزنس مین زرعی آلات کا کاروبار کرتا ہے اس کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ ملک میں گنے کی ملیں لگائی گئیں جن سے شوگر تیار ہوتی تھی۔ ان ملوں نے اب یہ کام شروع کیا ہے کہ گنا زمینداروں سے خریدتی ہیں لیکن کاشتکاروںکو قیمت ادا نہیں کرتیں۔ جب ادائیگی اربوں روپے تک ہو جاتی ہے تو مل مالکان ان ملوں کو حکومت کی اجازت کے بغیر دور دراز اضلاع میں لے جاتے ہیںیوں کاشتکاروں کا اربوں روپے ڈکار جاتے ہیں۔ پتوکی شوگر مل سرکاری مل ہے جو اب کسی نے خرید لی ہے۔ لیکن کسانوں کو گنے کی سپلائی کی قیمت جو بقایا ہے وہ کئی برسوں سے کسی زمیندار کو ادا نہیں ہوئی کیونکہ حکومت کی دو ملیں انہوں نے خرید لی ہیں اس لئے حکومت بھی ادائیگی کروانے میں ناکام ہے ۔ زمیندار دربدر پھر رہے ہیں لیکن انکا کوئی پرسان حال نہیں۔
پہلے حکومت گنا، کپاس، گندم کے زون کاشت کرنے کے مقرر کرتی تھی اور کسان حکومت کے حکم کی تعمیل کرتے تھے اب جس کاروبار میں حکومت کو ذاتی فائدہ ہو وہی پالیسی ہوتی ہے۔ گنا کی پیداوار بڑھ گئی ہے اور کپاس کی پیداوار کم ہو گئی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کپاس کے 100 کارخانے بند ہو گئے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد کپاس کی مصنوعات سرفہرست ہوا کرتی تھیں۔ جو اس کا روبار سے منسلک تھے تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں زر مبادلہ کی کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ لیکن حکومت وقت کو نہ ہی ٹیکسٹائل 100 کے قریب بند ہونے کا فکر ہے نہ ہی ہزاروں مزدوروں کے بے روزگار ہونے کا فکر ۔ ملک کی برآمدات کم ہونے اور زر مبادلہ کم ہونے کا بھی کوئی خوف نہیں۔ وہ اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ پہلے فیکٹری یا کارخانہ لگانے کی اجازت حکومت دیتی تھی جس کیلئے فزیبلیٹی رپورٹ دیکھی جاتی تھی اور سب پہلو دیکھ کر اجازت دی جاتی تھی اب بھیڑ چال ہے کوئی کنٹرول نہیں۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے۔ گنے کی ملیں حکومت سے اجازت لئے بغیر دور دراز علاقوں میں شفٹ کر لی جاتی ہیں اس لئے زمیندار خوار ہو رہے ہیں۔ انکا کوئی پرسان حال نہیں۔ خادم اعلیٰ اعلان تو کرتے ہیں کہ چیف منسٹر ہائوس میں ایک سیل بنا ئیں گے جو ادائیگی کروائے گا لیکن یہ صرف اعلان تک محدود ہے۔ خادم اعلیٰ خود تفتیش کر لیں پتوکی شوگر مل نے پتوکی کے کسی کسان کو پچھلے سال کی گنا سپلائی کی قیمت ابھی تک ادا نہیں کی۔ اگر پتوکی کے کسان جلوس نکالتے ہیں تو ان کو ادائیگی کی بجائے ڈنڈے پولیس کے پڑتے ہیں۔ خان میں جو چونیاں، دیپالپور، اوکاڑہ سے لیکر رحیم یار لگائی گئی ہیں۔ کیسی ستم ظریفی ہے اور کیسے حکمران ہیں۔ شکوہ کریں تو کس سے …؎
ہم نے سوچا تھا کرینگے کوتوال سے شکوہ
کمبخت وہ بھی تیرا چاہنے والا نکلا
ہم نے سنا ہے کہ شوگر ملوں کو چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت مل گئی ہے اور صرف اجازت ہی نہیں ملی بلکہ انہوں نے پریشر ڈالکر سبسڈی کی منظوری بھی لے لی ہے۔ جو کہ برآمدات کی کمی سے زر مبادلہ میں بھی کمی کا شکار ہے۔ حکومت بیشک انکو چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دے۔ لیکن ساتھ یہ بھی شرط عائد کر کے یہ سبسڈی اس وقت تک نہیں دی جائیگی جب تک مل مالک گنا سپلائی کا معاوضہ کسانوں کو ادا نہیں کریںگے۔
کیا حکومت وقت کے علم میں ہے چونیاں، اوکاڑہ، دیپالپور کی ملیں رحیم یار خان لیجانے سے پتوکی شوگر مل کے مالک کی MONOPLY ہو گئی ہے۔ امید ہے خادم اعلیٰ ان کسانوں کو معاشی بد حالی سے بچائیں گے اور انکی گنا سپلائی کا معاوضہ واپس دلائیں گے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری تو تباہ ہو چکی ہے اب کسانوں کو مجبور نہ کریں کہ وہ شوگر ملوں کو آگ لگا کر یہ انڈسٹری بھی ختم کرا دیں۔ ایک پرائس کنٹرول کا محکمہ ہوتا تھا جو قیمت مقرر کرتا تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا ہے تا کہ مل مالک اپنی من مانی کر سکے۔ پہلے ایک محکمہ پلاننگ کا ہوتا تھا جو 5 سالہ سکیمیں بناتا اور ہر سکیم غور و خوض سے ہوتی تھی اب صرف حکمرانوں کی انگلی اٹھتی ہے اور سکیم کا اعلان ہو جاتا ہے۔
غیر موزونیت دیکھے۔ مجیب کے چھ نقطے بھی بعدملاحظہ کر لیں اور اب صوبوں کے غیر ملکوں سے معاہدوں کو دیکھیں مجیب سے کہیں بڑھ کر صوبے ازخود بیرونی ملکوں سے معاہدے کر رہے ہیں۔ گائوں تباہ ہو رہے ہیں شہروں میں لوگوں کا آنا اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہر طرف رش ہی رش ہے۔ سانس لینا دشوار ہے لیکن کسان کو دو وقت کی عزت کی روٹی دستیاب نہیں …؎
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
اب ایک نئی بات سننے میں آ رہی ہے کہ حکومت کے پاس پچھلے سال کی خریدی ہوئی گندم کافی بچی ہوئی ہے اس لئے زمینداروں کو اب محکمہ زراعت کہہ رہا ہے گندم نہ اُگائو۔ امریکہ میں کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ گندم مت اگائو اگر زیادہ گندم ہو تو سمندروں میں پھینک دو لیکن لوگوں کو گندم اگانے سے محروم نہ کرو۔ اگر آٹا ملوں کو حکومت گندم دے اور اگر زیادہ پیداوار ہے تو ایکسپورٹ کرنے کا بندوبست کرے لیکن کسی صورت ملک میں قحط سالی نہ ہو۔ بھارت دریائوں کا پانی روک رہا ہے پیداوار تو ویسے ہی کم ہوگی۔ اب وادیوں سے پھل بھی کم ہو رہا ہے اور ہر قسم کی جنس کی پیداوار فی ایکڑ بھی کم ہو رہی ہے۔ بجلی بھی ٹیوب ویل کے لئے کمیاب ہے اور بجلی کے ریٹ بھی کسان کی پہنچ سے باہر ہیں۔ آبادی کی شرح میں بھی بہت اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر آبادی اس طرح بڑھتی رہی اور اس پر کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو ترقی کے سب تخمینے بیکار ہو جائینگے۔ اپنی جیب دیکھ کر خرچ کرنے کی عادت نہ ڈالی گئی اور بیکار پڑے منصوبوں پر عمل کر کے ملک کو قرض لیکر دیوالیہ نہ کیا جائے۔ ہوش کے دامن کو سختی سے تھامیں اور بیکار تجربات نہ کریں۔ یہ موٹروے، اورنج ٹرین کے منصوبے تب شروع کریں جب جیب میں پیسہ ہو قرضے لیکر موچھوں کو تائو دینا چھوڑیں قرضہ کیسے ادا ہوگا۔ ملک کو بھکاری نہ بنائیں ؎
کہاں کا عشق و محبت کہاں کا ہجر و وصال
یہاں تو لوگ ترستے ہیں زندگی کیلئے

ای پیپر دی نیشن