اگست 2018ء میں نئی قیادت نے حکومت سنبھالی تو ان کو شدید مالی بحران کا سامنا تھا۔ جولائی 2017ء میں حکومت غیر مستحکم ہوئی اور سال بھر بے یقینی کی صورتحال رہی تو ملک سے سرمایہ غیر ممالک میں منتقل ہونا شروع ہوا، بے یقینی کی صورت میں کاروبار میں بھی سرمایہ کاروں نے دلچسپی لینی کم کر دی۔ ایسی صورت میں معاشی بحران تو آنا ہی تھا۔ ماضی کی قیادتوں نے ملک کو کنگال ملک قرار دینے کی صورتحال سے بہترین منصوبہ بندی کر کے بچا لیا لیکن اب کی بار قیادت نے غیر ضروری اعمال کو فروغ دیکر ملک میں افراتفری کی صورتحال بنائے رکھی اور اسے تندہی اور پرجوش انداز میں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ 1985ء تک پاکستان میں تجارتی توازن کو قابو میں رکھا جاتا رہا۔ ایسی صورتحال کبھی نہیں بنی کہ غیر ممالک کے آگے ہاتھ پھیلایا جائے اور ان کی منتیں کر کے ریلیف پیکج حاصل کر کے خوش ہوا جائے۔ ملک میں برآمدات کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی اور درآمدات کو قابو میں رکھا جاتا تھا۔ یوں تجارتی عدم توازن کو روکا گیا۔ درآمدی مال کی ’’open list controlled list and ban list‘‘ طرح کی درجہ بندی کی گئی تھی۔ کھلی تجارتی فہرست کا مال تاجر درآمد کر سکتے تھے کیونکہ یہ ضروری مال ہوتا ہے۔
کنٹرول فہرست کا مال حکومتی ترجیح اور اجازت کے بعد درآمد کیا جا سکتا تھا۔ اس میں زرمبادلہ کے ذخائر کو مدنظر رکھ کر اجازت نامہ جاری کیا جاتا۔ البتہ ممنوعہ اشیاء درآمد نہیں ہوتیں۔ ایک اور ذریعہ تجارت، روس اور اشتراکی ممالک کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس میں زرمبادلہ درکار نہیں ہوتا۔ یہ مال کے بدلے مال کی بناء پر برآمد و درآمد کیا جاتا۔ اسے بارٹر تجارت کہتے تھے۔ ملک میں تمام ضروریات زندگی میسر تھیں، صنعت فروغ پا رہی تھی، تجارتی توازن برقرار رہتا تھا اور کسی غیر ممالک کے سامنے ادھار کے لئے ہاتھ نہیں پھیلایا جاتا تھا۔ ملک میں مہنگائی نہیں تھی اور عوام اپنے حال میں خوش تھے۔ 1985ء کے بعد پاکستان گلوبلائزیشن کے جال میں پھنس گیا۔ درآمدات پر کنٹرول کا نظام یکسر ختم کیا گیا تو تجارتی عدم توازن کا مسئلہ گھمبیر ہوا۔ دیگر ممالک کو کھلی تجارت کی اجازت دی گئی مگر پاکستان کی تجارتی مال کو طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑ کر برآمدات کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ یہ غیر منصفانہ گلوبلائزیشن کا نظام پاکستان کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس نظام کے برے اثرات سے بچنے کے لئے پاکستان کی کسی بھی قیادت نے کچھ بھی نہیں کیا۔ آج کل صورتحال کچھ اس طرح کی بنی ہوئی ہے کہ ’’آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیہ‘‘ کے مصداق شدید تجارتی عدم توازن ہے۔ قرضے پر قرضے لئے جا رہے ہیں۔ قرضہ یا غیر ملکی امدادی پیکج نام کا قرضہ ملک کی تجارت کو جاری رکھنے کے لئے ناگزیر ہو گیا ہے۔ پڑوسی ملک انڈیا بھی ہمارے ساتھ آزاد 10 دسمبر 1955ء کو انڈیا کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے آندھرا پردیش میں کرشنا دریا کے پانیوں کو سمندر میں ضائع ہونے سے روک کر زراعت کے استعمال کے لئے نگر جونا ساگر ڈیم کا افتتاح کیا تو کہا کہ یہ ہمارے جدید مندر ہیں اور ساتھ یہ بھی بتایا اس ڈیم کو روپے خرچ کر کے تعمیر کرنا ہے کیونکہ غیر ملکی زرمبادلہ نہیں ہے۔ روزانہ ستر ہزار راج مزدور کام کرتے رہے اور 1967ء میں شریمتی اندرا گاندھی نے ڈیم سے پانی رواں کر کے افتتاح کیا۔ نگر جوناساگر ڈیم کی بدولت آندھرا پردیش کی چالیس لاکھ ایکڑ بنجر زمین زیر کاشت آگئی یوں عوام کو نوکریوں کی ضرورت نہیں۔ انہی زمینوں کے مالک بن کر خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں۔ انڈیا اپنے دریاؤں کا ایک بوند پانی بھی سمندر میں ضائع ہونے نہیں دیتا۔ آج انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر $405 Billion ہیں۔ اس کے باوجود انڈیا میں غیر ملکی مال حسب ضرورت درآمد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی طرح وہاں پر مشروبات اور برگر درآمد نہیں کئے جاتے۔ ہمارے آبی وسائل، دریاؤں میں رواں 145 MAF اور آسمان سے برسنے والا پانی 180 MAF اوسط سالانہ ہے مگر ہماری قوم پینے کے پانی سے بھی محروم ہے۔
انڈیا کا شہر ممبئی کراچی سے بڑا شہر ہے مگر وہاں پر کراچی کی طرح پانی کا بحران نہیں۔ موجودہ حکومت نے ماضی کے حکمرانوں کو ضمیر کا قیدی بنا کر جیلوں میں ٹھونسنے کی ٹھان لی ہے۔ یوں افراتفری کا عالم برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پھر ملک میں سرمایہ کیسے واپس آئے گا۔ چاہئے تو یہ ہے کہ انڈیا کے وظیفہ خوار ڈیم مخالفین کو ثبوتوں کے ساتھ پکڑ کر جیلوں میں ٹھونس دیں اور کاسمیٹک ترقیاتی منصوبہ جات پر خرچ کرنے کی بجائے تمام مالی وسائل کالا باغ ڈیم سمیت ڈیمز کی تعمیر پر لگائے جائیں۔ اپنے ملک کے اندر گیس کے 5000 mcfd کے قابل استعمال ذخائر موجود ہیں جبکہ گیس کی طلب 3500 mcfd کے قریب ہے۔ پھر بھی قطر سے ایل این جی درآمد کر کے اسے گیس میں بدل کر فروخت کیا جا رہا ہے اور اپنے گیس کے کنوؤں کو بند رکھا گیا ہے۔ درآمدی ایل این جی کوٹہ ہولڈروں کو مہیا کر کے مراعات یافتہ طبقہ کی تجوریوں کو بھرنے کا کام اس نئے پاکستان میں جاری و ساری ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ معاشی بحران کے باعث قطر سے ایل این جی کی درآمد کم سے کم ایک سال کے لئے معطل کی جاتی مگر ایسا موڈ نظر نہیں آتا۔ اس طرح تو مراعات یافتہ طبقہ کے گیس سلنڈر بھرنے کے کارخانے بند ہو جائیں گے۔ سندھ میں تھر اور سرکریک میں تیل گیس اور سونے کے وسیع ذخائر ہیں۔ پنجاب میں اٹک اور خیبر پی کے میں کئی مقامات پر تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔
بلوچستان میں مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، فاران، خضدار، لسبیلہ، چاغی، جوہان، دالبندین، مستونگ، کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں تیل، گیس، سونا، چاندی، تانبہ، لوہا، زنک، کرومائیٹ وغیرہ کے پچاس سے زائد، دھات اور غیر دھات کے وسیع ذخائر ہیں۔ وہ بھی غیر ملکی کمپنیوں کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ملک میں مزید افراتفری پھیلانے کے لئے دستور میں 18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قدرتی وسائل کی آمدن یا رائلٹی صوبوں کو حاصل ہو تو اس میں کیا برائی ہے۔ صوبے اگر زیادہ ترقی کریں تو پاکستان ہی ترقی کرے گا۔ پھر اس میں کیا حرج ہے کہ 18ویں ترمیم قائم رہے۔
نئی حکومت کو چاہئے کہ ملک میں انارکی یعنی افراتفری کے اسباب ختم کر کے استحکام قائم کریں تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ ملے۔ انارکی کی صورتحال برقرار رہی تو معاشی عدم استحکام جاری رہے گا۔ زیر زمین معدنیات، دھات اور تیل و گیس، مقامی سرکاری اداروں کے ذریعے نکالے جائیں۔ 18ویں ترمیم پر وقت اور توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے NES COM کے اسی ہزار سائنسدان، ماہرین معدنیات، انجینئرز اور ٹیکنیشنز کی خدمات ا سے استفادہ کر کے PMDC کو فعال کر کے معدنیات نکالی جائیں۔ OGDC اور PPL کے کام کو تیز کر کے ملک میں موجود تیل و گیس کے کنویں کھودے جائیں۔ پاکستان ایسا خوش قسمت ملک ہے کہ پانچ/ چھ ہزار میٹر کی گہرائی میں تیل یا گیس نکل آتی ہے اور ہر دس کنویں کھودیں تو آٹھ یا نو کنوؤں میں سے تیل یا گیس نکل آتی ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں کو بلاکس دئیے گئے ہیں مگر وہ سست رفتار سے کام کر رہے ہیں اور پاکستان کی خوشحالی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ عوام کو ایسی غلط آس میں رکھنا کہ سابقہ حکمرانوں سے تین سو ارب ڈالر وصول ہونگے تو خوشحالی آئے گی۔ ایسی فرضی داستانیں بلند و بالا کنٹینروں پر کھڑے ہو کر عوام کو سنا کر سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے تو کئے جاتے ہیں مگر عوام تو زمینی حقائق مانگتے ہیں۔ ملک میں ایسے ہی انارکی جاری رہی اور مہنگائی بڑھتی گئی تو موجودہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا کر عوام نے حکمرانوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرنی ہے۔ وقت ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے اسے قابو میں رکھ کر عوام کو سہولتیں دی جائیں۔ کالا باغ ڈیم تعمیر کر کے 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین زیر کاشت لا کر غریب عوام کو نوکریوں کے بجائے خود روزگار کا مستقل بندوبست کیا جائے اور ملک کو غیر ملکی قرضوں سے نجات دلائی جائے۔ مشروبات وغیرہ جیسی غیر ضروری اشیاء کی درآمد بند کی جائے۔ ان مشروبات سے غیر ملکی کمپنیاں پاکستان سے ڈالر کی صورت میں منافع لے جاتی ہیں الٹا ان کی غیر ممالک میں بنی مصنوعات درآمد کر کے تجارتی خسارہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر حکمرانوں نے وقت کو ہاتھوں سے جانے دیا اور درست سمت میں کام نہیں کیا تو شاید زیادہ دیر حکومت نہیں کر پائیں گے۔