اسلام آباد(خصوصی نمائندہ)قومی ایمرجنسی سنٹر برائے انسدادِ پولیو کے مطابق خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں پولیو کے دو کیس منظر عام پر آئے ہیں اور یوں اس سال منظرِ عام پر آنے والے پولیو کے مریضوں کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔ پولیو کے نئے کیس سامنے آنے پر انسدادِ پولیو کے قومی کوآرڈی نیٹرڈاکٹر رانا محمد صفدر نے کہا ہے کہ ان دو مریضوں کے سامنے آنے سے ایک بار پھر یہ واضح ہوگیا ہے کہ جب تک پولیو کا وائرس ملک میں کہیں بھی موجود ہے تب تک پاکستان کا کوئی بچہ اس سے متاثر ہونے سے محفوظ نہیں۔قومی ایمرجنسی سنٹر کی پیش کردہ معلومات کے مطابق پولیو وائرس سیوریج سے حاصل شدہ نمونوں میں پایاگیا تھا جس نے ایک پانچ سالہ بچی اور ایک سات سالہ بچے کو اپنا شکار بنا لیا۔ پولیو وائرس کو دونوں بچوں کے فضلے کے نمونے سے الگ کرلیا گیا ہے۔ ان دونوں بچوں میں پولیو کی مخصوص علامات چہرے کا رعشہ اور کمزوری ظاہر ہوچکی ہیں جبکہ متعدد بار پولیو ویکسین او۔ پی۔ وی کے قطرے پینے سے ان کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ڈاکٹر محمد صفدر نے کہا کہ پولیو کے خلاف مکمل مدافعت پیدا کرنے کے لئے پولیو کی ہر مہم کے دوران ہر بچے کو پولیو ویکسین کے قطرے پلانا لازمی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خوش قسمتی سے صرف وہی بچے پولیو سے کامیاب لڑائی لڑ سکتے ہیں جنہیں پولیو ویکسین کے قطرے کئی بار پلائے گئے ہوں۔ ایک بچہ جس قدر پولیو کے قطرے پیتا ہے، اس کے پولیو سے بچنے کے امکانات اسی تناسب سے بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد صفدر کے مطابق جو بچے پولیو سے نہیں بچ پائے وہ اس حد تک پولیو ویکسین کے قطرے نہیں پی سکے تھے کہ وائرس کو شکست دے سکیں۔ اس لئے ایسے بچوں کو زندگی بھر کے لئے پولیو کا شکار ہوکر معذور ہونے اور یہاں تک کہ موت کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔ڈاکٹر محمد صفدر نے ایک بار پھر زور دیا کہ اگر ایک مرتبہ کوئی پولیو کا شکار ہوجائے تو اس کا کوئی علاج نہیں کیونکہ پولیو کا وائرس اپنا کام کرچکا ہے۔ بچوں کو کئی بار پولیو ویکسین کے قطرے پلانا مکمل طور پر محفوظ ہے اور پولیو ویکسین متعدد بار دیے جانے کے لئے ہی تیار کی گئی ہے۔ پولیو ویکسین کا کئی بار پلائے جانا پولیو کے خلاف بہتر تحفظ کی ضمانت دیتا ۔ 2018 میں اس وقت پولیو کے صرف آٹھ مریض سامنے آئے ہیں جن میں بلوچستان کے ضلع دُکی میں سامنے آنے والے تین، کراچی میں سامنے آنے والا ایک، خیبر پختونخوا میں چارسدہ کے مقام پر ایک، قبائلی ضلع خیبر میں سامنے آنے والا ایک اور باجوڑ میں سامنے آنے والے حالیہ دو مریض شامل ہیں۔ ان آٹھ مریضوں میں سے پانچ بچوں کو، جن میں باجوڑ میں سامنے آنے والے دو حالیہ مریض بھی شامل ہیں، کئی بار پولیو ویکسین پلائی گئی تھیاور یہی وجہ ہے کہ یہ بچے زندگی بھر کی معذوری سے بچ گئے ہیں۔ اس دوران بلوچستان کے ضلع دُکی میں سامنے آنے والے مریض زندگی بھر کی معذوری کا شکار ہوگئے کیونکہ انہیں متعدد بار پولیو ویکسین کے قطرے نہیں پلائے گئے تھے اور اس لئے ان میں پولیو وائرس سے لڑنے کے لئے درکار قوتِ مدافعت نہیں تھی۔ ان میں سے ایک بچہ پولیو کی وجہ سے موت کا شکار ہوا کیونکہ پولیو وائرس نے اس کے ان اعضا کو مفلوج کردیا جو سانس لینے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔پولیو کے انسداد کے لئے وزیرِ اعظم کے فوکل پرسن ڈاکٹر بابر بن عطا نے ان والدین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے پولیو کے خلاف جنگ میں بھرپور تعاون کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیو کا وائرس اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور وہ ان بچوں کی تلاش میں ہے جو پولیو ویکسین کے قطرے نہیں پی سکے یاپھر کسی وجہ سے مناسب حد تک اس کے قطروں سے محروم رہے ہیں۔ پولیو کے خاتمے کے لئے ہم نے ہر بچے میں وائرس سے جنگ لڑنے کی مدافعت پیدا کرنی ہے تاکہ وائرس کہیں فرار نہ ہو پائے۔ انہوں نے مزید کہا کہاگرچہ پولیو کے خلاف جنگ کا آخری مرحلہ دشوار ثابت ہورہا ہے تاہم یہی وہ بہترین موقع ہے جب پولیو کا پاکستان سے مکمل
خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ آئندہ پولیو مہم منتخب شدہ اضلاع میں 12 سے 15 نومبر کو ہورہی ہے جبکہ اگلی ملک گیر مہم 10 سے 13 دسمبر کو ہوگی۔ اس دوران ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں کہ اس بار پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ کردیا جائے۔ بابر بن عطا نے زور دیا کہ پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کے لئے اس بات کا یقینی بنانا ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے ہر بچے کو موثر اور محفوظ پولیو ویکسین کے دو قطرے معمول کے مطابق یا پھر خصوصی مہم کے دوران ضرورپلائے جائیں۔