اسلام آباد (اے این این) سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے اگر میں نے فالودے والے، برفی والے، رکشے والے کے اکاو¿نٹ میں پیسے رکھوائے ہیں تو میری مرضی، انہیں پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا پیسے میں نے رکھوائے اور اکاو¿نٹ میں نے کھلوایا، پھر اگر رکھوائے بھی ہیں تو بینک والا پھنسے گا۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا روز کہتے ہیں کبھی دودھ والا آگیا، کبھی برفی والا آگیا۔ پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا پیسے میں نے رکھوائے، پھر اگر رکھوائے بھی ہیں تو اس کا بھی میں دفاع کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا جس کے اکاﺅنٹ میں رکھوائے اس کو پتا نہیں تو اس کا قصور ہے بینک والے کا قصور ہے، کئی مقدمات بھگتے ہیں بڑی حد تک قانون کا پتا ہے۔ این آر او کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ این آر او کا معاملہ کچھ نہیں، وزیراعظم عمران خان کو بولنے کی عادت ہے، ہم کہہ رہے ہیں ایگزیکٹو بن جا اپوزیشن ہمیں کرنے دو۔ آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے بعد ملک میں کشیدہ صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کی تقریر میں وزیراعظم نے اپنی حکومت کو معاملے سے علیحدہ کرلیا اور اداروں کو آگے کر دیا۔ وزارت داخلہ کا قلم دان وزیراعظم کے پاس ہے، وزارت داخلہ کو ہی مذاکرات اور ایکشن کرنا ہوتا ہے، وزیراعظم کو چاہئے وہ خود اس معاملے کو حل کرائیں۔ نیٹ نیوز کے مطابق انہوں نے کہا سندھ اور پنجاب میں مشکوک اکاو¿نٹس کوئی نئی بات نہیں۔ موجودہ حکومت کے سعودی عرب سے اتنے مراسم نہیں کہ انھیں پیسے مل جاتے، کسی نے انھیں سعودی عرب سے پیسے دلوائے ہیں، اب حکومت کو چین اور ابوظہبی سے بھی پیسے ملیں گے۔ انہوں نے کہا مجھے جعلی اکاو¿نٹس میں گرفتار کرنا ہے تو کر لیں، گرفتاری تو سیاست کا حسن ہے لیکن ثابت کرنا ہو گا میں نے لوگوں کے جعلی اکاو¿نٹس میں پیسے ٹراسنفر کئے۔ میں تو گرفتار ہو کر پنجاب میں دوبارہ مشہور ہونا چاہتا ہوں، پہلے بھی گیارہ سال جیلیں بھگتیں، اب بھی تیار ہوں۔ جب میرے خلاف قتل کے کیسز بنائے گئے تو تب بھی نہیں گھبرایا تھا، اب تو جعلی کیسز بنائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا نئی حکومت کو چھ ماہ کا عرصہ ملنا چاہیے لیکن اگر عوام کو ریلیف نہ ملا تو سڑکوں پر نکلیں گے۔ وزیراعظم کو پتہ نہیں کس نے وزارتِ داخلہ کا قلمدان رکھنے کا مشورہ دیا، وزیراعظم کو ان معاملات پر براہ راست خود بات کرنی چاہیے، ان کا سٹینڈ تو ٹھیک لیکن انہیں خود فرنٹ پر آ کر بات کرنی چاہیے، وزارت داخلہ کو ہی مذاکرات کرنا ہوتے ہیں، وزیراعظم نے خود کو ہٹا لیا اور دوسروں کو سامنے کر دیا، مفاہمت کیلئے تو ہم ہمیشہ تیار ہوتے ہیں۔ سابق صدر نے پنجاب سے گرفتار ہونے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گرفتار ہو کر دوبارہ مشہور ہونا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا نئی صورتحال میں وزیراعظم سے لازمی تعاون کرینگے۔ایان علی کے وعدہ معاف گواہ بننے پر کہا وہ گرفتاریوں سے نہیں ڈرتے۔ انہوں نے کہا وزیراعظم نے تقریر میں حکومت کو الگ اور ادارے آگے کر دیئے۔ ہم کب تک ایک دوسرے کو برا کہتے رہیں گے کبھی تو ملک کیلئے ایک ہونا پڑے گا ہر ادارے کو اپنے دائرے میں رہنا چاہئے سیاسی ہو یا کوئی اور۔ نیب کا قانون ہم نے نہیں میاں صاحب نے بتایا تھا پہلے کسی جج کے سامنے طے ہونا چاہئے کہ نیب کا کیس بنتا ہے یا نہیں شہباز شریف نیب کے اپنے بنائے گئے قانون پر تنقید کر رہے ہیں۔
زرداری