مولانا فضل الرحمان کا مارچ، اس کے شرکائ، اپوزیشن کی جماعتوں کی مہمان اداکاروں جیسی انٹری دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اقتدار کی سیاست انسان سے کیا کچھ نہیں کروا دیتی، کل تک مذہب کارڈ استعمال نہ کرنے کا اعلان کرنے والے آج انہی پتوں کو کھیلتے ہوئے مستقبل میں اپنا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، خود کو ملک کا مالک سمجھنے اور درجن بھر مائیک کو مکا مار کر گرانے والوں کے پاس ایک ہی مائیک باقی بچتا ہے اور وہ تقریر کرتے ہوئے خود زیادہ لہراتے ہیں جب کہ ماضی میں وہ ڈائس ہی الٹا دیا کرتے تھے۔ وہ جو خود کو پہلی صفوں کا مالک سمجھتے تھے آج مولانا کے مدارس کے طالبعلموں اور اساتذہ کی حاضری کو دیکھ کر پچھلی صفوں میں کھڑے مسکرا رہے ہیں، وہ جو خود کو ترقی پسند کہتے نہیں تھکتے ان کے نزدیک بھی مخصوص سوچ اور مذہب کو سیاست اور اس سے بڑھ کر اقتدار کے لیے استعمال کرنے والوں کا ساتھ دینا جمہوریت کی بقا کا سفر سمجھا جا رہا ہے۔ یہ ساری قلابازیاں شہر اقتدار ہی کے لیے ہیں، یہ ساری کارروائیاں حکومتی بنچوں پر بیٹھنے کے لیے ہیں، ان کارروائیوں میں عوام اور عوامی مسائل تو کہیں دور بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا مارچ درحقیقت اقتدار کی کشمکش ہے ایک ایسا طبقہ جو یہ سمجھتا ہے اس ملک پر حکمرانی ان کا حق ہے وہ حکومتی بنچوں سے الگ ہوا ہے تو ہضم نہیں ہو رہا کہ یہ کیسے ہو گیا ہے۔ مولانا آج سارے انتخابی عمل پر سوالات اٹھا رہے ہیں تو کیا جب وہ الیکشن جیتا کرتے تھے اس وقت انہیں یہ عمل غیر شفاف کیوں نظر نہیں آیا، جب وہ الیکشن جیتتے تھے اس وقت کہیں گڑبڑ نہیں ہوتی تھی یہ ساری خرابیاں صرف اس لیے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان اور ان کے رفقاء کو وہ عہدے نہیں ملے جو ماضی میں مل جایا کرتے تھے۔ اب انہیں سارا انتخابی عمل ہی مشکوک دکھائی دے رہا ہے، انہیں سارا گلاس خالی دکھائی دے رہا ہے، وہ اتنا عرصہ پارلیمنٹ میں رہے ہیں انہوں نے انتخابی عمل کو شفاف بنانے اور اس میں موجود خامیوں اور خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کیا اقدامات کیے تھے، اس حوالے سے ان کا حصہ کیا رہا ہے، اگر انہوں نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر اچھا کام کیا ہوتا تو ملکی معیشت آج اس حال میں نہ ہوتی، ملک پر ہزاروں ڈالر قرض کا اضافی بوجھ نہ پڑتا لیکن اس وقت وہ اقتدار سے لطف اندوز ہوتے رہے اور جب وہ پروٹوکول سے باہر ہوئے ہیں تو انہیں ہر طرف خرابیاں نظر آ رہی ہیں۔
جمہوری حکومت میں سیاسی جماعتوں کو احتجاج کو پورا حق حاصل ہے لیکن احتجاج کا نام لے کر، احتجاج کی آڑ میں عوام میں نفرت پھیلانے اور انہیں ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے اس رویے کے بارے میں ریاست کے تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے اور بروقت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ہم مختلف وقتوں میں ایسے کرداروں کے بارے فیصلے کرتے ہوئے مصلحتوں کا شکار ہوتے رہے ہیں اور اسکا ناقابل تلافی نقصان بھی اٹھایا ہے آج ہم دوبارہ کسی مصلحت کا شکار ہوتے ہیں تو نقصان ماضی کی نسبت دگنا ہو گا۔ آج مولانا فضل الرحمان کو اداروں کا کردار نظر آ رہا ہے مولانا کو یہ کردار دوہزار دو، دوہزار سات اور دوہزار تیرہ کے انتخابات میں نظر کیوں نہیں آیا۔ یہی وہ اہم نقطہ ہے جس پر زور دینے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور ایجنڈا کیا ہے۔ ریاستی اداروں کو سیاست میں شامل کرنا انکی ساکھ کو خراب کرنے کے لیے اعلانیہ بیانات دینے کا مقصد اداروں کا استحکام ہرگز نہیں ہو سکتا۔
اپوزیشن کی جماعتوں کے پاس تبدیلی کے لئے پارلیمنٹ کا راستہ موجود ہے۔ اگر وہ جمہوری ہونے کے دعویدار ہیں تو سب مل کر جمہوری طریقے سے تبدیلی لائیں کوئی انہیں روک نہیں سکتا، جب انتخاب کا راستہ موجود ہے، جب مختصر وقت میں سینیٹ میں یہ عمل کیا بھی جا چکا ہے تو قومی اسمبلی میں بھی اپوزیشن وہی راستہ اختیار کر لے اسے روکا کس نے ہے۔ درحقیقت اسلام آباد سے دوری کو دین سے دوری کے ساتھ جوڑ کر معصوم اور سادہ لوح عوام کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہی صورت حال برقرار رہتی ہے تو آئندہ چند روز میں سیاسی درجہ حرارت میں شدت آئے گی، حالات کسی بھی طرف جا سکتے ہیں۔
اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اقتدار کے کھیل میں مولانا کے ہاتھوں میں کھیلنا بند کریں اور ملکی بقا اور سلامتی کے ضامن اداروں کو متنازع بنانے کی اس مہم کا حصہ نہ بنیں کیونکہ ملکی سلامتی سب سے اہم ہے۔
حکومت کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں خود حکومت ہے۔ اگر عوام کی زندگی کو آسان بنایا جاتا تو انتشار پھیلانے والوں کا مقابلہ عوام خود کرتے، آج مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، بیروزگاری بڑھی ہے، ہسپتالوں میں غریبوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، تعلیم کے شعبے میں مسائل بڑھے ہیں، اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، آٹا مہنگا ہوا ہے اور چینی نوے روپے کلو تک جا پہنچی ہے، مرغی کے گوشت کی قیمت میں کمی نہیں ہو رہی نہ ہی استحکام آ رہا ہے، دودھ مہنگا ہوتا جا رہا ہے، ادویات کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے تو عوام کس طرف جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوامی مسائل پر توجہ دے، قرضے کم ہو رہے یا زیادہ، ریکوریاں ہو رہی ہیں یا نہیں، کرپٹ لوگ گرفتار ہو رہے ہیں یا نہیں، پلی بارگین ہو رہی ہے یا نہیں ،عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں اسے غرض چولہا جلنے سے ہے اگر وہی نہ جلے تو وہ حکومت کی حمایت کیوں کرے گا۔