رفیق سلطان
گھریلو جھگڑے سے لے کر ریاستی سطح تک قانون کے نفاذکو یقینی بنانا پولیس کا فرض ہے،کوئی بھی واقعہ یا حادثہ ہو جائے اس پر سب سے پہلے پولیس جواب دہ ہوتی ہے جو کہ پولیس کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے ۔ان خیالات کا اظہارڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہورپولیس ڈاکٹر انعام وحید نے نوائے وقت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ پولیس میں ظالم کو مظلوم بناکر ملزموں کے خلاف شواہد پیش ہونے سے روکنا، کیس کی عدم پیروی ،دوران حراست تشدد ،ایف آئی آر کے بعد تفتیش میں سست روی سے ،پولیس مقابلے سمیت گمشدہ مال کی برآمدگی تک کے عوامل پر بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر انعام وحید نے کہاکہ وہ اپنی تعیناتی کے دوران نہ صرف کارکردگی بلکہ سسٹم کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں ۔کیونکہ تفتیش کے نظام کو موثر بنا کر جب تک مجرموں کو عدالتوںسے سزائیں نہیں دلوائی جاتیں نظام میں بہتری نہیں لائی جاسکتی ۔لہٰذاسسٹم کی بہتری کے لیے پولیس کے علاوہ مجرموں کے نفسیاتی اور سماجی اصلاح کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔
انوسٹی گیشن پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے انہوں نے بتایاکہ وہ لوگوں کو فوری انصاف کی فراہمی پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن جعلی پولیس مقابلوں جیسے کاموں کو رد کرتے ہیں۔ گزشتہ بارہ ماہ کے دوران انوسٹی گیشن پولیس لاہور نے 792گینگز کے 2060ملزمان کو گرفتار کرکے 67کروڑروپے سے زائد مالیت کی برآمدگی سمیت آٹھ ہزار سے زائد مقدمات ٹریس کیے گئے ہیں ،انوسٹی گیشن پولیس لاہورنے نومبر 2018سے لے کر ابتک 327مقدمات قتل 12اغوا 3101وہیکل چوری 1730سرقہ بالجبر33ڈکیٹی 13ڈکیتی ،رابری معہ قتل ،177وہیکل چوری 1232نقب زنی سمیت معمولی اور سنگین نوعیت کے 56842مقدمات چالان کیے گئے ہیں ،جبکہ 6548اشتہار ی ملزمان جن میں سے 1093سنگین مقدمات کے مجرمان اور 2469عدالتی مفرور گرفتار کیے گئے ہیں۔ان کاکہنا تھاکہ انویسٹی گیشن پولیس نے صرف تفتیش کیلئے ونگز ہی قائم نہیں کیے بلکہ وسائل کے اندر رہتے ہوئے تمام ممکنہ سہولیات فراہم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ پراسیکیوٹرصاحبان اور تفتیشی افسران کے مابین وراور اپنی تعیناتی کے دوران تفتیش کے معیار کو بہتر بنانے اور تفتیشی افسران کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہر ممکنہ کو شش بھی جاری ہے اور سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔پچھلے کچھ عرصے سے افسران کے لیے متعدد ریفریشر کورسز اور ورکشاپس کا انعقاد جاری ہے جن کا مقصد تفتیش کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور کشاپس منعقد کروائی جا رہی ہیں تاکہ تفتیشی افسران اپنی تفتیشوں اور شعبوں کے نقائص کو دور کر سکیں۔تفتیش اور جدید ٹیکنالوجی کو ساتھ ساتھ چلانے کیلئے فرانزک سائنس لیبارٹری کے ایکسپرٹس کو خاص طور سے بلوا کر ماہرین کے لیکچرز کنڈکٹ کروائے جا رہے ہیں تاکہ سنگین جرائم کی تفتیش کیلئے تفتیشی افسران کو علم ہو سکے کہ کرائم سین کو محفوظ کیسے کرنا ہے، شہادتیں کیسے حاصل کرنی ہیں پارسل کی پیکنگ کیسے ہوگئی نیز کتنے ٹائم کے اندر اندر پارسل لیب بھجوانا ضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔یہ اقدامات نہایت خوش آئند ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے عملی اقدامات سے تفتیش کا معیار یقینا بہتر ہو گا اور تفتیشی افسر خود پراعتماد محسوس کرے گا۔ اس کے علاوہ عوام الناس کے جان و مال کی حفاظت اور ملزمان کے خلاف بروقت کاروائیو ں کے لیے واٹس ایپ پر "معاون" کے نام سے ہیلپ لائن کا آغاز کیا گیا ہے جس کی باقاعدہ تشہیر کروا کر عوام کو یہ باور کروایا گیاکہ وہ کسی بھی مشتبہ یا کسی جرم میں ملوث افراد کے بارے میں بلا خوف خطر اطلاع دے سکتے ہیں کیونکہ اطلاع دہندہ کا نام پوری طرح صیغہ راز میںرکھا جاتا ہے۔معاون ہیلپ لائن کی مددسے ابتک سینکڑوں خطرناک ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان کاکہنا تھاکہ شہر لاہور میں انسانیت سوز جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے صرف اور صرف جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ جرائم پیشہ افراد نے ایسے جرم کے نت نئے طریقے ایجاد کر لیے ہیں کہ انسانی سوچ دنگ رہ جاتی ہے اورمشاہدہ میں آیا ہے کہ ایسے جرائم کے سرزد ہونے میں ٹیکنالوجی نے اہم کردار ادا کیا ہے لہذا ایسے جرائم کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔ حال ہی میں پنجاب پولیس کے افسران نے روایتی پولیسنگ سے ہٹ کر ڈیجیٹل پولیسنگ کی طرف فوکس کیا ہے جس کے ذریعے لاہور پولیس کو خاطر خواہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
رواں سال انویسٹی گیشن پولیس کی CROبرانچ جو پولیس کی ناک ،کان اور دماغ کی حیثیت رکھتی ہے۔جہاں نا صرف کرائم کا تجزیہ کیا جاتا ہے بلکہ یہی برانچ جرائم کے نت نئے طریقوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی سفارشات افسران بالا کو بھجوائی جا رہی ہیں۔ان سفارشات کی روشنی میں پولیس میں نئے سافٹ ویئرز اور ایپلی کیشنز متعارف کروائی جا رہی ہیں ۔جس کی ایک مثال یہ ہے کہ رواں سال میں CROبرانچ نے 91لاوارث نعشوں کو ڈیجیٹل فرانزک کے ذریعے شناخت کر کے ورثا کے حوالے کیا ہے۔اس کے علاوہ تقریباً150کے قریب جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کامیاب ریڈز کر کے ملزمان کو گرفتار کیا جو کہ اگر روایتی پولیسنگ کے ذریعے کیے جاتے توملزمان کبھی بھی گرفتارنہ ہوتے اور مقدمات بستہ خاموشاں میں ہمیشہ کے دفن ہو جاتے۔اسی طرح ڈی آئی جی انویسٹی گیشن نے پنجا ب ٹیکنالوجی بورڈ کے تعاون سے موبائل چوروں کو نکیل ڈالنے کے لیے eGadget کے نام سے ایک ایپ تیارکروائی گئی جسے پلے سٹور سے باآسانی ڈائون لوڈ کیا جا سکتا ہے۔اس ایپ کو ڈائریکٹ انویسٹی گیشن کی CROبرانچ سے لنک کیا گیا اور اس میں شہر کے تمام چوری شدہ موبائل فون کا ڈیٹا بیس جمع کیا جاتا ہے اور آئندہ موبائل فون کی خریدنے اور فروخت کرنے والے افراد کا جامع ریکارڈ مرتب کیا جارہا ہے۔ اس ایپ سے موبائل فون کی مرمت اور سوفٹ ویئر ریپئرنگ سے منسلک افراد کا ریکارڈ بھی دستیاب ہو گیا ہے اوراب چوری شدہ موبائل فون کی خرید و فروخت یا IMEIنمبر تبدیل نہیں ہو سکے گا جو کہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کا ایک بڑا کارنامہ تھا اور انویسٹی گیشن کو ایسی ایپلی کیشن مہیا کر دی گئی جس سے بڑے بڑے کریمنلز قانون کی گرفت میں آ گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا CROکو مزید فعال بناتے ہوئے CDR، موبائل فون لوکیشن، کرائم سین یونٹ اور موبائل لوکیٹرز کے حصول کو بہت آسان کر دیا گیا ہے اور مزید ملزمان کی گرفتاری کے دوران آنے والے اخراجات کی ادائیگی اور افسران کی حوصلہ افزائی کے لیے کاسٹ آف انویسٹی گیشن کی مد میں رواں سال کے دوران ایس پیز کی جانب سے 725پولیس افسران میں 4کروڑ 12لاکھ90ہزارکے چیکس تقسیم کیے گئے۔ایسے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انویسٹی گیشن پولیس کے افسران زبانی جمع خرچ پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اپنی ہر ممکن کو شش سے تفتیش اور تفتیشی دونوں کی فلاح و بہبود کیلئے کوشاں ہیں۔مزید یہ کہ انویسٹی گیشن ہیڈ کوارٹر میں2بار تبدیلی تفتیش بورڈ کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔اگر کوئی مدعی مقدمہ تفتیشی عمل سے مطمئن نہ ہو تو تبدیلی تفتیش کے لیے بورڈ میں آ کر اپنی تفتیش تبدیل کروا سکتا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب میں نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کا چارج سنبھالا تو تبدیلی تفتیش سے متعلق 250سے زائد کیس زیر التواء تھے جنہیں ہم بروقت میرٹ پر نمٹانے میں سرخرو رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں تفتیش کے معیار میں جدت لانے کیے میرٹ کو ہر صورت مقدم رکھا جا رہا ہے اوتھانہ کلچر میں تبدیلی کے لیے انچارج انویسٹی گیشنز کو اس کی ذہانت اور پیشہ وارانہ قابلیت کی بنیاد پر تعینات کیا جارہا ہے ۔لاہور انویسٹی گیشن پولیس کے موجودہ افسران نے تفتیش کے طریقہ کار میں جدت پیدا کر کے اسے انٹرنیشنل معیار کے مطابق بنا دیا ہے۔
ڈی آئی جی انوسٹی گیشن نے اُمید ظاہر کی کہ ملزمان کے گرد اسی طرح مضبوط گرفت رہی اور سسٹم میں مزید بہتری کے ساتھ ساتھ ان پر عمل جاری رہا توشہر لاہورمیںہونیوالے جرائم میں مزید کمی واقع ہوگی ۔اب یہاں شہریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ پولیس کی کوششوں میں ان سے بھر پور تعاون کریں۔ڈی آئی جی انوسٹی گیشن نے بتایا کہ جہاں نقائص کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور نئی اصلاحات لائی جارہی ہے وہیں احتساب کا عمل بھی جاری ہے۔ایک سال کے دوران 118ملازمین کو سروس کی ضبطی ،برطرفی ، انکریمنٹ روکنے سمیت دیگر سزائیں دی گئی ہیں۔