اس وقت ملک کی معاشی نمو 9سال کی کم ترین سطح پر ہے اور معیشت عملی طور پر منجمد ہوچکی ہے جس کے باعث مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ جب تک ملک کی شرح نمو اس ملک کی آباد ی کی شرح نمو کے مطابق نہیں بڑھے گی اس وقت تک عام آدمی کا معیار زندگی بہتر نہیں ہوسکتا اور اس وقت حالت یہ ہے کہ دور دور تک ملک کی معیشت کی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی اور جو کوئی بھی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ مستقبل قریب میں نمایاں بہتری آئے گی‘ میرے خیال میں وہ سراسر جھوٹ کہہ رہا ہے کیونکہ اس بدترین معاشی صورتحال میں اپوزیشن سڑکوں پر ہے اپوزیشن کا آزادی مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہے اور اس مارچ کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ اسکے اثرات ملک کی معیشت و مستقبل کی سیاست پر کیا مرتب ہونگے؟ حکومت نے اپوزیشن مارچ کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور وقت ضائع کیا گیا لیکن جب اپوزیشن کا مارچ قریب آگیا تو مذاکراتی کمیٹی بنادی گئی جس نے مجبوراً اپوزیشن کو مارچ کرنے اور اسلام آباد تک آنے کی اجازت دی۔ اﷲ خیر کرے اور اپوزیشن مارچ کا معاملہ مختصر وقت میں پرامن طریقے سے نمٹ جائے ورنہ حالات میں ابتری کا اندیشہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس بدترین معاشی حالت میں اپوزیشن تحریک سے مزید معاشی ابتری آئیگی اور اگر اس اپوزیشن مارچ کو سنجیدگی اور درست طریقے سے نہ سنبھالا گیا تو حکومت کیلئے تو مشکلات بڑھیں گی لیکن ساتھ ساتھ ملک کی معیشت مکمل طور پر بیٹھ جانے کا اندیشہ ہے اور خدانخواستہ ایسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے کہ ملک انقلابی فیصلے کرنے پڑ جائیں۔ عام آدمی کا تعلق روزی روٹی اور عام استعمال کی اشیاء کی قوت خرید سے ہے۔ اس سے عوام کا کوئی تعلق نہیں کہ ڈالر کا ریٹ کیا ہے‘ ملک پر قرضے کتنے تھے اور اب کتنے ہوچکے ہیں‘ بیرون ملک کس کس کے اثاثے ہیں‘ کس کس نے کتنے قرضے معاف کروائے ہیں۔ایسی صورتحال میں جب کوئی وفاقی و صوبائی وزیر اگر عوام کو 50لاکھ گھروں اور کروڑوں نوکریوں کی بات کرتا ہے تو اب اس بیان کو صرف مذاق سمجھا جاتا ہے کیونکہ آپ سے آٹے دال کی قیمت کنٹرول نہیں ہورہی اور آپ دعوے کر رہے ہیں 50لاکھ گھر تعمیر کرنے کی۔حکومت کے معاشی نامناسب اقدامات کے باعث نہ تو بجٹ کے ٹیکس اہداف پورے ہوسکیں گے اور نہ ہی بجٹ خسارے میں کمی کا امکان ہے بلکہ سرمایہ کاری میں زبردست کمی آئی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ملک کے کئی افراد بے روزگار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے ملک کی معیشت کبھی نہیں سنبھل سکتی کیونکہ یہ مشروط قرضے براہ راست عوام کے معیار زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور آئی ایم ایف نے قرض دینے سے پہلے بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں اضافے سمیت کئی ایسے معاشی فیصلے کرائے جس سے عام آدمی پر مہنگائی کا مستقل بوجھ بڑھا ۔ آئی ایم ایف ایسے اقدامات صرف اس لئے کراتا ہے کہ انہیں اپنا سود بروقت مل سکے۔ موجودہ حکومت نے انتہائی مجبوری میں آئی ایم ایف سے قرض لیا اور مہنگائی کا ایک طوفان آگیا۔ اگر درست معاشی فیصلے کئے جاتے تو ممکن تھا کہ معیشت بہت تیزی سے مستحکم ہوجاتی لیکن اس حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ایسے طریقے سے متعارف کرائی جو میری نظر میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ اگر یہ اعلان کیا جاتا کہ 4%ٹیکس کسی بھی کمرشل بینک میں جمع کراکر چالان حاصل کرلیں تو آپکی رقم چاہے وہ کہیں بھی ہے‘ وہ وہائٹ ہوجائیگی میرے خیال میں اس طریقے میں نہ تو عوام کو کسی وکیل کی مدد کی ضرورت ہوتی اور نہ ہی ٹیکس افسران کی بلکہ عام آدمی کسی بھی کمرشل بینک میں جاکر چالان جمع کرکے اپنی رقم وہائٹ کرسکتا تھا اور میرے خیال میں اس طریقے سے لوگ قطاروں میں لگ کر ٹیکس جمع کراتے اور 500ارب سے زیادہ ریونیو حاصل کیا جاسکتا تھا اور اس متعلق میں مسلسل سابق وزیر خزانہ اسد عمر‘ موجودہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور وزیراعظم عمران خان کو خطوط لکھتا رہا لیکن کسی بھی درست رائے پر موجودہ حکومت کان دھرنے کو تیار نہیں حالانکہ اسی طرح کی اسکیم ضیاء الحق کے دور میں وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے دی تھی تو لوگوں نے قطاروں میں کھڑے رہ کر اسکیم سے فائدہ اٹھایا تھا۔ اس طریقے سے کھربوں روپے معیشت میں آجاتے اور بے روزگاری میں واضح کمی ہوسکتی تھی۔