اسلام آباد (چوہدری شاہد اجمل)قائد اعظم یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کورونا وبا کی دوسری لہر کے پیش نظر چھ نو مبر تک یونیورسٹی کو بند رکھنے ، ہا سٹلز میں ناکافی سہو لیات ، بسوں کے مسائل سمیت کیفے ٹیریا میں انتظامیہ کی جانب سے بینچوں کی تنصیب اورمبینہ طور پر سابق ڈین کی بیٹی کو داخلہ دینے سے انکار پر طلبا کو نسلیں ایک مرتبہ پھر انتظامیہ کے سامنے کھڑی ہو گئیں، چند روز تک وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی کی رہائش گاہ کا محاصرہ کرنے کے بعد اسلام آباد انتظامیہ کو طلبا تنظیموں سے مذاکرات کے لئے بلایا گیا ، گزشتہ روز اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد اور طلبا یونین کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں طلبا کو ان کے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کرائے جانے پر احتجاجی دھرنے ختم کر دئیے گئے، حیران کن امر یہ ہے کہ ان مذاکرات میں یونیورسٹی کی جانب سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی جبکہ طلبا کونسلوں نے بھی یقین دہانیوں پر خوش ہو کر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یونیورسٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ طلبا کونسلوں کی جانب سے وائس چانسلر کیو اے یو ڈاکٹر محمد علی شاہ کے خلاف یہ پہلا احتجاجی مظاہرہ تھا جس کی اصل و جوہات کاتا حال علم نہیں ہو سکا ہے، چھ نو مبر تک تو یونیورسٹی ویسے ہی بند ہے ، ہاسٹل میں مقیم طلبا و طالبات کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں چلے جائیں مگر سات نو مبر سے قبل ہاسٹلز کے مسائل پر احتجاج کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ ان احتجاجی مظاہروں میں پختون کو نسل، سرائیکی کو نسل اور بلوچ کو نسل شامل تھیں جبکہ دیگر بڑی کو نسلوں پنجاب، جی بی اور مہران کو نسلوں نے مظاہروںمیں حصہ نہیں لیا ، اس سے ایک تاثر یہ بھی جاتا ہے کہ یہ کیو ایس ایف کے تحت مظاہرے نہیں تھے اور ان مظاہروں کا مقصد یونیورسٹی میں پنجاب اور پختون طلبا و فیکلٹی ممبران کے درمیان پائی جانے والی عداوت ہو سکتی ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ ان مظاہروں کی ایک وجہ سابق ڈین سو شل سائنسز کی بیٹی کا ایم فل میں داخلے سے انکار بھی بتایا جاتا ہے، اس سے قبل یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مین کیفے ٹیریا میں بینچوں کی تنصیب کی گئی تھی جنہیں ویلڈنگ کے زریعے جوڑا گیا تھا، پختون کو نسل کے چند طلبا نے ان بنچوں کو اکھاڑ ڈالا، ذرائع کے مطابق اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کیفے ٹیریامیں بینچوں کی تنصیب در حقیقت پشتون طلبا کو آتن (ثقافتی رقص) سے روکنے کے لئے گیا گیا ہے، بعد ازاں یونیورسٹی انتظامیہ نے ملوث طلبا کے خلاف ڈسپلنری کمیٹی کے ماتحت انکوائری کی ہدایت کی جس کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ہا سٹلز میں مسائل موجود ہیں تو طلبا پہلے ڈائر یکٹر سٹوڈنٹس افیئرز کو درخواست لکھی جاتی ہے مگر یہ کام بھی نہیں کیا گیا، محض بہانے تراشے گئے ہیں۔ ہفتے کو اسلام آباد ضلعی انتظامیہ اور احتجاجی طلبا کے درمیان مزاکرات ہوئے جس کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا۔ اس حوالے سے قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ایسے مظاہرے معمول کا حصہ ہیں ، یہ اندرونی معاملات ہیں جس میں چند فیکلٹی ممبران ملوث ہو سکتے ہیں، دوسرے اس میں لسانی نسلی یاصوبائی تعصب بھی ہو سکتا ہے، مگربحیثیت وائس چانسلر وہ ان معاملات کو باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں، ایسے افراد یا تنظیمیں وائس چانسلر کو کمزور کرنا چاہتی ہیں مگر مجھے بھی ان معاملات کو حل کرنے کے طریقے آتے ہیں۔