رشوت‘ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ سمیت بدعنوانیوں سے چوری شدہ دولت کے اعداد و شمار تقریباً 26 کھرب ڈالر سالانہ یا عالمی جی ڈی پی کا 2.7 فیصد ہیں۔ اپنے ملک سے دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے سے سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ قومی دولت لوٹ کر اسکی بیرونی ملک منتقلی ایسا پیچیدہ عمل ہے کہ اس کا کھوج لگانا اس لئے بھی دشوار ہے کہ کئی حکومتوں نے مالیاتی کنٹرول کیلئے ڈیجیٹلائزڈ عالمی معیشت کے ساتھ تسلسل برقرار نہیں رکھا۔ یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ اب ایف اے ٹی ایف کے پاس پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کا معاملہ زیرغور نہیں۔ بھارت ہمیں بلیک لسٹ میں ڈلوانے میں ناکام ہوگیا۔ سیاسی اکھاڑے میں دو بیانیوں کی جنگ ہو رہی ہے۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور ’’کرپشن کا خاتمہ‘‘ انصاف اور کرپشن کا عمرانی بیانیہ زیادہ طاقتور ہے۔ پنجاب میں تاریخ کی سب سے بڑی روزگار سکیم شروع ہو چکی ہے جس سے 16 لاکھ خاندانوں کے 80 لاکھ افراد مستفید ہونگے۔ 30 ارب کی روزگار سکیم سے بیس سے50 سال کے افراد نہایت آسان شرائط پر قرضے حاصل کر سکیں گے۔ ملک میں بحران صرف سیاسی اور اقتصادی نہیں بلکہ بدترین قسم کا اخلاقی بحران ہے۔ سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال ہے جو زیادہ تر فحاشی اور عریانی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادتوں کیخلاف ہے۔ جھوٹ‘ جعلی خبریں‘ کہانیاں‘ بے خوفی اور دیدہ دلیری سے چلائی جارہی ہیں۔ مذہبی منافرت کو خوب ہوا دی جارہی ہے۔ ٹک ٹاک بند ہوئی پھر کھول دی گئی۔ لوٹا ہوا پیسہ واپس نہ آسکا‘ دونوں پارٹیاں باریاں لے چکی‘ عمران اپنی باری لے رہے ہیں۔ یاروں کو متبادل کی فکر لاحق ہے یا پھر پرانی باریوں کی۔ میثاق جمہوریت ہو چکا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کے منی لانڈرنگ کیخلاف اقدامات کو سراہانے کے باوجود دہشت گردوں کی فنانسنگ کرنے والے ’’ہائی رسک ممالک‘‘ کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ آئرلینڈ اور منگولیا کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے جبکہ شمالی کوریا اور ایران کو بلیک لسٹ میں برقرار رکھا گیا ہے۔ نئی قانون سازی کے بعد منی لانڈرنگ کی سزا پانچ سال سے بڑھا کر دس سال اور جرمانے کی رقم ایک کروڑ روپے سے بڑھا کر پانچ کروڑ کر دی گئی ہے جبکہ ملزموں کی جائیدادیں ضبط اور اسلحہ لائسنس بھی منسوخ کر دیئے جائینگے۔ حکومت نے ملک اور بیرون ملک سے ہنڈی اور حوالے کے ذریعے غیرقانونی رقوم کی منتقلی پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔ منی ایکس چینج کمپنی سے ڈالر خرید کر فارن کرنسی اکائونٹ میں جمع نہیں کرائے جا سکتے۔ دس ہزار ڈالر سے زیادہ کیش ڈالر کی نقل و حمل پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی سے اربوں ڈالر کی روئی اور خوردنی تیل درآمد کرنا پڑیگا۔ رواں سال کے دوران کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار پچھلے 30 سال کی کم ترین سطح تک گرنے کے خدشات پیدا ہو گئے۔ پنجاب اور سندھ میں تمام جننگ فیکٹریاں اور آئل ملز فعال نہیں ہو سکیں۔ ٹیکسٹائل ملز کو 50 فیصد روئی درآمد کرنا پڑیگی۔ کپاس کا پیداواری رقبہ جو دس سال پہلے 30 لاکھ ایکڑ تھا‘ 18.33 فیصد کمی کے بعد تقریباً 25 لاکھ ایکڑ رہ گیا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں تقریباً 35.42 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ آبادی کے بے تکے پھیلائو کے باعث زرعی رقبہ تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ ہائوسنگ سکیموں کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں فی ایکڑ پیداوار میں انقلاب جبکہ ہمارے ہاں فی ایکڑ پیداوار گرتی جارہی ہے۔ بھاری فنڈنگ سے چلنے والے زرعی ادارے ایسے ہیں جیسے اینٹی کرپشن محکموں کی موجودگی میں کرپشن کا پھیلائو ہے۔
عوام کو ریلیف دینے یا مہنگائی کو روکنے کی کوئی سکیم کارگر نہیں ہو پا رہی۔ گرانی نے عمران خان کی راتوں کی نیند اڑا دی ہے۔ وزیراعظم نے یقین دلایا ہے کہ ہفتے بھر میں مہنگائی نیچے آنا شروع ہو جائیگی مگر کیسے؟ جنرل اعظم خان اور ملک امیر محمد خان کے دور میں ایسا ہوا تھا‘ دونوں دبنگ بے خوف شخصیت تھے‘ اپنی راتوں کی نیند اڑانے کی بجائے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی نیند اڑا دیتے تھے۔ عوام کی جیبوں سے صرف چینی کی مد میں 70 ارب روپے کی خطیر رقم اڑالی گئی۔ بڑی ملیں گنے کی کرشنگ ملی بھگت سے کرتی رہیں۔ فعال اور غیرفعال ملز 48 روپے فی کلو گرام کی قیمت پر چینی تیار کرنے اور 78 روپے فی کلو گرام نرخ پر چینی تیار کرنے والے کارخانوں کے درمیان غیرقانونی توازن قائم کیا گیا جس سے دونوں اقسام کے کارخانوں نے فائدہ اٹھایا۔ برآمدی اجازت سے گزشتہ ڈیڑھ سال میں قیمت 18 روپے فی کلو بڑھی جس سے شوگر ملز کے ریونیو میں 140 روپے اور قیمتوں میں 38 روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ آئندہ سیزن کیلئے گندم کی امدادی قیمت 1400 روپے فی من سے بڑھا کر 1650 روپے فی من کی گئی ہے۔ آئندہ سال گندم کی امدادی قیمت 250 روپے کے اضافے کے بعد 1650 روپے فی من ہوگی۔ حکومت ان ممالک کی زرعی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرے جن کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے دو سے تین گنا زیادہ ہے۔ صرف گندم کی فی ایکڑ کاشت پر کسان کو چھ ماہ کی محنت کے بعد فی ایکڑ تین سے چار ہزار روپے کی بچت ہوتی ہے جس سے کسان بددل ہو کر زراعت سے منہ توڑ کر شہروں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں۔ 50 لاکھ گھروں کا وعدہ ایفا کیا ہونا تھا‘ ابھی یہ منصوبہ شروع ہی نہ ہوسکا۔ سوئس ملکوں میں چوروں ڈاکوئوں کی دولت جوں کی توں پڑی ہے۔ خیبر پختونخوا میں چھ خصوصی اکنامک زونز کے قیام کا فیصلہ ہوا ہے جن میں تین لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔ صوبے کا مستقبل صنعتی شعبے سے وابستہ ہے۔ ماضی میں خیبر پختونخوا مختلف صنعتی زونز کے حوالے سے سرمایہ کاروں کیلئے جنت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس حوالے سے گدون کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ان صنعتی زونز کو دی جانیوالی مراعات آہستہ آہستہ کم کرکے ختم کر دی گئیں جس کی وجہ سے کارخانے ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ سی پیک کے تحت ایک بار پھر سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش مراعات کا اعلان کیا جارہا ہے جن میں رعایتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی شامل ہے۔
اس سال ماہ ستمبر میں 735 ملین ڈالر کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہوگیا ہے جو گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 1492ملین ڈالر خسارے میں تھا۔ گزشتہ ماہ برآمدات میں دو فیصد اور ترسیلات میں 9 فیصد اضافہ ہوا۔ ترسیلات بینکاری کے ذریعے قانونی طریقے سے آرہی ہیں۔ ادویات 5 سو گنا مہنگی‘ آٹا 78 روپے فی کلو‘ چینی 118 روپے کی ہو گئی ہے۔ قوم کو لنگر خانون کی نہیں کارخانوں کی ضرورت ہے۔
٭…٭…٭