حسرتیں

میرے محلے میں ایک تندور ہے سلیم صبح آٹھ بجے سے رات 10 بجے تک تندور پر ہوتا ہے دو بڑے پتیلے سالن کے تیار کرتا ہے مجھے بتا رہا تھا گزشتہ دو سالوں سے تقریباً نوے فیصد لوگ اس سے سالن روٹی لے کر جاتے ہیں دو افراد کا کھانا تقریبا سو روپے میں دیتا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اب اپنے گھر میں اپنی مرضی کا کھانا بنانے سے بھی گئے زندگی کو  مفلس کی قبا بنانے میں کس کا ہاتھ ہے میں بیکری میں  کھڑا تھا چھوٹے سے معصوم بچے دونوں کے ہاتھوں میں دس دس روپے تھے اور وہ بیکری والے سے علیحدہ علیحدہ رس(پاپے) مانگ رہے تھے ٹوٹی ہوئی ربڑ کی جوتیاں  دیکھ کر کلیجہ منہ کو آ گیا کون ہے اس کربناک  مناظر کا ذمہ دار چھوٹے معصوم سے چہرے  دکانوں پر کام کر رہے ہوتے ہیں کون ہے ان کی معصومیت کو مشقت کی بھٹی میں جھونکنے والے۔ مصطفٰی زیدی کہتے ہیں۔
کیا یہی ہے میرے معیارِ جنوں کا رستہ
دل دہلتا ہے جو گرتا ہے سڑک پر پتا۔۔۔
ایک فلاحی ادارے کو میرے دوست چلاتے ہیں وہاں جانا ہوا کیسے کیسے سفیدپوش مرد و زن لائن میں لگے دیکھے تو جان ہی نکل گئی۔پھر مصطفٰی زیدی۔۔
اے وطن یہ تیرا اترا ہوا چہرہ کیوں ہے
درد پلکوں سے لہوبن کے چھلکتا کیوں ہے
کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اٹھالی تجھ سے
چھین لی کس نے تیرے کان۔کی بالی تجھ سے
حضرت عمر فاروق یاد آئے جو ایک گورنر سے فرما رہے تھے اگر چور نے بھوک کی وجہ سے چوری کی تو اس کی بجائے میں تیرے ہاتھ کاٹ دونگا آج ہمارے قبرستانوں میں میتوں کی جگہ حسرتیں خواہشیں محرومیاں ہی دفن ہو رہی ہیں ایک ٹیچر بتا رہا تھا کہ ذہین اور محنتی بچوں کو ماں باپ پڑھانے سے قاصر ہو رہے ہیں اور وہ بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں ہماری صورت حال یہ ہو چکی ہے کیا خوب کسی نے کہا کہ قافلے کو لوٹنے کے بعد ڈاکو آپس میں لڑ پڑے اور لٹے ہوئے مسافر اس بحث میں الجھ گئے کہ ڈاکوؤں کا کون سا گروہ حق پر ہے میرے شہر میں بورے والا ٹیکسٹائل مل ہے جو عرصہ دراز سے بند پڑی ہے کسی زمانے میں ایشیا کی دوسری بڑی مل تھی جب بھی کبھی پاس سے گزرتا ہوں پرانا زمانہ یاد آجاتا ہے جب ہزاروں مزدور اس میں آ جا رہے ہوتے تھے کوئی ویرانی سی ویرانی ہے ایک زخم ہے جس سے مسلسل خون رستا  چلا جاتا ہے اب تو صاحب ثروت اور مشہور سخی لوگ بھی ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے تمام حکمرانوں نے کتنے روزگار کے ذرائع پیدا کیے ہر ملک میں انڈسٹری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر ان پر لگے تالوں کا زنگ دراصل ہمارے مقدر پر لگا زنگ ہے ایک گھر کے متعلق پتہ چلا کہ کباڑیے کو ایک نادر اور نایاب وراثتی چیز بیچ دی دوستوں سے گزارش کر کے وہ چیز واپس لا کر دی اور ضرورت بہتر ہے نہ ہی بتائی جائے پہلے ہمارے گھروں میں روز میٹھی اور چٹ پٹی اشیاء بنتی تھیں آج ہر دوسرے گھر میں چلے جائیں وہاں مہینوں ایسا کچھ بھی تیار نہیں ہوا ہوتا۔لوگ عیدقربان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ انکے گھروں میں گوشت آئے اور وہ پکائیں اور کھائیں۔لوگ روٹی تک ہی محدود ہو چکے ہیں اور وہ بھی ان کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے پوری دنیا میں ہمارے شوق اور کلچر کی مشہوری تھی مگر افسوس آج ہر شخص عجیب صورتحال سے دوچار ہے عمران خان صاحب سے بہت امیدیں وابستہ تھیں اور ہیں مگر کچھ نظر تو آئے  ہر آنے والا حکمران دعوے وعدے کرتا ہے جب اقتدار میں آتا ہے تو سابقین کی نااہلیوں کا رونا شروع کردیتا ہے اور عوام کب تک بیانات سے اپنا پیٹ آخر کب تک بھریں گے۔ آج امن و امان کی صورتحال حد درجہ خراب ہوچکی ہے اسکی بنیادی وجہ روزگار کے ذرائع نہ ہونا ہے آپ خود فرماتے ہیں جیلیں غریب لوگوں سے غربت کی وجہ سے بھری پڑی ہیں سیکورٹی ادارے کیسے امن پیدا کریں وہ بھوک نہیں مٹا سکتے۔

ای پیپر دی نیشن