دو ہزار چھ سے 2010تک چینی کا بحران رہا عوام لائنوں میں لگ کر چینی خریدتے اور استعمال کرتے تھے، اْس وقت حکمران یہ کہتے پائے جاتے کہ عوام چینی ترک کردیں بحران خود بخود ختم ہوجائے گا۔ اْس وقت چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے آڑھتیوں نے 350فیصد تک منافع بھی کمایا ،پھر حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنا پڑے اور چینی کی برآمدات کے آگے ’’ڈیم‘‘ بنا دیا تاکہ پہلے ملک سے باہر جانے والی چینی کو روکا جائے تاکہ ملک کی ضرورت پوری ہو سکے، اس کے بعد اگلے سیزن تک بچ جانے والی چینی کو ایکسپورٹ کیا جائے اور نئے کرشنگ سیزن کے لیے نئی شوگر مارکیٹ میں لائی جائے۔ اْس وقت چینی کی قیمت 125روپے فی کلو تک چلی گئی تھی جبکہ گنے کی قیمت 127روپے فی 40کلوگرام(من) تھی۔ اور ایسا اس لیے ہوا تھا کہ پاکستان میں شوگر مل کی مشینری بنانے کا ایک ہی مینوفیکچرر رہ گیا تھا اور وہ تھا اتفاق انڈسٹریز۔ اب اس کے تانے بانے دیکھ لیں میں کچھ نہیں کہوں گا، بقول شاعر محض اتنا کہوں گا کہ
ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس کی عادت بھی تھی
ظلم تو یہ بھی تھا کہ ہیوی مکینیکل کامپلکس کو بھی بند کر دیا گیا تھا اس کے علاوہ مشینری کی درآمد کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔ اتفاق انڈسٹریز اکیلا مینوفیکچرر رہ گیا تھا جس کی مکمل اجارہ داری تھی۔ حالانکہ سرمایہ دارانہ نظام اس طرح نہیں چلتا۔ اس کے اصول واضع ہیں کہ کوئی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے، کوئی بندش اور رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔اب جبکہ چینی کا بحران ایک بار پھر سر اْٹھانے لگا ہے تو اس کے لیے ہمیں اپنی اپنی کمر ضرور کس لینی چاہیے، اس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ پیداوار میں کمی اور دوسرا چینی کی برآمدات میں اضافہ۔مارکیٹ میں رواں ماہ چینی کی قیمت 50 روپے فی کلو سے 10روپے کلو اضافے سے 60 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ سندھ میں چینی کی قیمت آئندہ آنے والے دنوں میں 80 روپے سے 90 روپے تک پہنچنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ سندھ کی 32 شوگر ملوں میں سے 26 شوگر ملوں میں گنے کی کرشنگ شروع ہوچکی ہے۔ جبکہ اومنی گروپ کے تحت چلائی جانے والی سندھ کی 9 شوگر ملوں میں سے 6 شوگر ملیں ایف آئی اے میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں بینک اکائونٹس منجمد ہونے کے کرشنگ کا عمل شروع نہیں کرسکی ہیں۔ کرشنگ سیزن میں کئی ہفتوں کی تاخیر کے باعث نئی چینی مارکیٹ میں نہ آ سکی جس پر شوگر ڈیلرز نے مصنوعی طور پر سپلائی کم کر کے قیمتوں میں ازخود اضا فہ کر دیا۔ رواں برس پنجاب میں کرشنگ سیزن 30 نومبر کی ڈیڈ لائن کے باوجود شروع نہ ہو سکا اور دسمبر کے پہلے ہفتے تک کسی ایک مل نے اپنا بوائلر آ ن نہیں کیا جس کے نتیجہ میں کرشنگ التوا کا شکار اور نئی چینی تا حال مارکیٹ میں نہ آ سکی۔
ایک دیرینہ مسئلہ تو یہ ہے کہ شوگر ملز مالکان گنے کے کاشتکاروں کا استحصال کرنے کے لیے جان بوجھ کر کرشنگ سیزن لیٹ کرتے ہیں کیونکہ گنے کی کھڑی فصل کا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹھاس کا لیول زیادہ اور وزن کم ہو جا تا ہے جبکہ کا شتکارمجبوراً اپنی گنے کی فصل بیچ دیتے ہیں تا ہم کرشنگ سیزن تا خیرکے ساتھ شروع ہونے سے اس کے اثرات ما رکیٹ پر پڑنا شروع ہو گئے اور شوگر ڈیلرز نے بھی چینی کی سپلائی میں کمی کا بہانہ بنا کر قیمتوں میں خود ساختہ اضا فہ کر دیا۔اس لیے ہر سال شوگر ڈیلرز گٹھ جوڑ کے نتیجے میں کرشنگ سیزن کے دوران قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرتے ہیں۔ رواں برس بھی سپلائی کم ہونے کی آڑ میں مصنوعی اضافہ کیا جا رہا ہے حالانکہ شوگر ملز کے پا س وافر ذخائر موجود ہیں اور کئی لاکھ ٹن چینی ملکی ضرورت سے زیا دہ ہے ان حالات میں تھوک کی سطح پر اضافہ نا قابل فہم ہے، شہریوں نے چینی کی قیمتوں میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں آئے روز اضافے نے غریب عوام کی کمرتوڑ دی ہے جبکہ حکومت مہنگائی کم کرنے کے دعوے تو کر رہی ہے لیکن شہریوں کو سستی اشیا کا ملنا مشکل ہو گیا ہے اور حکومت گرا ں فروشی سمیت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کوئی کا رروائی کرتی نظر نہیں آ رہی۔
چینی کی تھوک سطح پر سرکاری قیمت 53 روپے جبکہ پرچون سطح پر 55 روپے مقرر کی گئی ہے لیکن تھوک اور پرچون ما رکیٹ میں سرکاری نرخ پر چینی کی فروخت نہیں کی جارہی، ضلعی انتظامیہ کی بنائی گئی پرائس کنٹرول کمیٹیاں زائد قیمت پر چینی فروخت کرنے والے دکانداروں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں ناکام ہیں، تھوک مارکیٹ میں چینی 53 کی بجائے 56 جبکہ پرچون ما رکیٹ میں چینی 55 کی بجائے 60 روپے فی کلو فروخت کی جا رہی ہے دوسری جانب حکومت نے عوام کو ریلیف فرا ہم کرنے کے لیے یوٹیلٹی سٹورز بنائے تا کہ شہریوں کو سستے داموں اشیا ضروریہ مل سکیں لیکن یو ٹیلٹی سٹورز پر فروخت ہونے والی چینی کے ریٹ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جا ری کردہ سرکا ری ریٹ سے زیادہ ہیں۔
اس حوالے سے اگر کسانوں کی بات کی جائے تواْن کے اپنے مسائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ گنا شوگر مل والوں کو بیچنے کے بجائے گڑ بنا لیا جائے تو زیادہ پیسے بچ جاتے ہیں۔ کرایہ اور مزدوری بچتی ہے اور دوسرے اس کے دام بھی اچھے ملتے ہیں، یعنی 80 روپے کلو۔اس کے برعکس حکومت نے گنے کی فی من قیمت 182 روپے مقرر کی ہے، جس میں 30 روپے تو خرچہ نکل جاتا ہے اور شوگر مل مالکان ادائیگی بھی تاخیر سے کرتے ہیں۔کسانوں کا موقف بڑا واضع ہے کہ شوگر مل مالکان نے مل تاخیر سے چلا کراس سال بھی ہمارا گنا سکھا دیاہے۔ اس سے لکڑی کی قیمت زیادہ ہے، لکڑی پر کوئی خرچہ نہیں۔ گنے پر اتنا خرچہ کرتے ہیں لیکن ملتا کچھ نہیں، اس پر فی ایکڑ پر دس ہزار کا بیج لگتا ہے اس کے بعد کھاد، زرعی ادویات، ٹریکٹر اور مزدوری کے اخراجات الگ ہوتے ہیں اور آخر میں بچتا کچھ نہیں ہے۔کسانوں کے ان مسائل پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے وہ اس فصل سے بدظن ہو گئے ہیں اس کا واضع ثبوت پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی سالانہ رپورٹ ہے جس میں انہوں نے اپنی سالانہ رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ رواں سال گنے کی پیداوار میں کمی کا امکان ہے جس سے چینی کی پیداوار متاثر ہوسکتی ہے۔تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 14 جبکہ سندھ میں 19 فیصد کمی کا امکان ہے۔ سال 2017 اور 2018 میں گنے کی پیداوار 83 ملین ٹن ہوئی تھی جبکہ 2018 سے 2019 کے سیزن میں 75 ملین ٹن گنا دستیاب ہو گا۔سندھ میں گذشتہ تین سالوں کے دوران فی من گنے کے سرکاری نرخ 182 روپے مقرر کیے جاتے ہیں۔ شوگر ملوں نے پہلے یہ نرخ دینے انکار کیا بعد میں سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر کے سٹے آرڈر کا مطالبہ کیا لیکن عدالت نے مقررہ نرخ ادا کرنے کا حکم جاری کیا۔
میرے خیال میں اس حوالے سے اگر بھارتی طرز پر ایک میکنزم بنادیا جائے تو ہم کسی بھی سٹیک ہولڈر کی ’’اْجارہ داری ‘‘ سے بچ سکتے ہیں، بھارت میں چینی 35 روپے فی کلو ہے اور گنے کی قیمت 250 روپے فی 40کلوگرام (من) ہے۔ پاکستان کی کرنسی کے حساب سے یہ قیمت 70 اور 500روپے بن جاتی ہے۔بھارت میں ایسا نہیں ہے کہ کوئی شوگر مل اپنی اجارہ داری قائم کرسکے کیونکہ وہاں ساری شوگر ملیں فارمر کوآپریٹو ہیں۔ ایسا پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے لیکن پاکستان میں ایک اور مسئلہ بھی ہے۔اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک مل ایک سو پچیس کروڑ روپے میں لگتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ شوگر مل لگانے میں جو لاگت آتی ہے اسے کم کیا جائے۔ اثاثوں کی قیمتوں کا تخمینہ افراط زر سے منسلک ہے۔ ایک شوگر مل کے لیے یہ لاگت بہت زیادہ ہے۔ اس میں بہت حد تک بینکروں نے بدمعاشی کی ہوئی ہے کیونکہ ان کا کمیشن بن جاتا ہے۔جبکہ دوسری بدمعاشی مینوفیکچرر کی ہے جس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ منافع کمانے کی غرض سے چینی کو بیرون ملک ایکسپورٹ کرے تاکہ اْسے اس کامنافع روپے کے بجائے ڈالروں میں مل سکے۔
یہاں پاکستان میں ایک اور بھی اہم مسئلہ ہے کہ ماضی میں جو بھی اقتدار میں آتا رہا وہ شوگر ملیں لگا لیتا۔پھر جو ایک آدھ پرائیویٹ سیکٹر میں ہوتی ہے اس پر پریشر ڈال کر اونے پونے داموں اس کا چینی کا کارخانہ چھین لیتے اس طرح مال اینٹھنے میں سبھی اکٹھے ہوتے رہے۔اور کبھی کبھی تو ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہر سال چینی کا خود ساختہ بحران پاکستانیوں کو سانپ کی طرح ڈستا رہا۔کیوں کہ صاحب اقتدار لوگ چینی کے مصنوعی بحران کا شور مچا کر سبسڈی بھی لیتے اور آپس میں تقسیم کرتے رہے۔ اس دوران نام نہاد اپوزیشنی اختلاف بھی روایتی ہی ہوتا۔اور ساتھ ہی لاکھوں میٹرک ٹن چینی برآمد کی جاتی رہی اور چینی کی کمی کا رونا رو کراس کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی رہی۔آج تک تو چینی باہر بھیجنے کے لیے بھی سبسڈی دی جاتی تھی اسطرح صنعتکاروں کو بھی سرکاری خزانوں پر ہاتھ صاف کرنے کی چھوٹ ملتی رہی ہے وزیر ، مشیر و اصل مقتدر حضرات برآمد پر اپنا مخصوص حصہ وصول کرتے رہے با اثر شوگر ملز مالکان تو ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ چینی برآمد ہو تاکہ سبسڈی کی رقوم بھی حکومت سے اینٹھ لی جائیں وزارت خزانہ کی نگرانی میں قائم اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس بھی روایتی ہوتے ہیںاصل ویلیو تو مال کی ہے جو ہر کام کروانے میں مدد گار ہوتا ہے اس کے ریل پیل سے ہمہ قسم کے کاغذات پر منظوری اور اجازت نامے جاری ہوتے رہتے ہیں۔مگر قوم کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی رہی۔
سرمایہ داری نظام کا یہی کمال ہے کہ عوام کی جیب بھی کٹ جائے مگر انہیں پتہ بھی نہ چلے پہلے بھی شوگر مافیا 4لاکھ 25 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کرچکا ہے سٹاک کردہ چینی کی برآمد کے بعد چینی کی کمی کا رونا دھونا شروع ہوجائے گاپھر بین الوزارتی واقتصادی رابطہ کمیٹی اس کی در آمد کے لیے پرمٹ جاری کردے گی اس طرح مزید عوام تک مہنگی چینی پہنچے گی۔اس کو سرمایہ کا سرکل کہتے ہیں۔جو کہ اوپر ہی اوپر عوام کو مطلع کیے بغیر چلتا رہتا ہے چینی کے ہرسال بحران کا اصل حل تو یہ ہے کہ شوگر ملوں کا کنٹرول مزدوروں کی منتخب یونینز کے حوالے کردیا جائے تاکہ زیادہ محنت سے پیداوار بھی بڑھے۔کسانوں کو بروقت گنا کی قیمت کی ادائیگی ہوگی مزدوروں کو منافع میں دس فیصد حصہ بھی دیا جائے کسانوں کے رت جگے سے پیدا کیا گنا اونے پونے داموں ملوں والے چھین لیتے ہیں۔حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق حسیب وقاص شوگر ملز ننکانہ سے مظفر گڑھ دوسال قبل شفٹ ہوچکی مگر مالکان نے بااثر ہونے کی وجہ سے آج تک گنے کے مالکان کو کوئی ادائیگی نہیں کی مظفر گڑھ میں بھی ابھی کروڑوں کی ادائیگیاں باقی ہیں عبداللہ شوگر ملز دیپالپور نے کاشتکاروں کے کروڑوں دبا رکھے ہیںسندھ میں چونکہ سبھی ملیں سندھ کی حکمران جماعت کے قائدین کی ہیں اس لیے وہاں لاکھ چیخ و پکار کریں کوئی کاشتکاروں کی سنتا ہی نہیں۔پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے اعداد وشمار کے مطابق سندھ بھر میں مجموعی طور پر 32 شوگر ملیں چینی کی تیاری کیلئے فعال ہیں، جن میں ٹھٹہ گھارو میں قائم عبداللہ شاہ غازی شوگر مل، میر واہ گورچانی میر پور خاص میں قائم العباس شوگر مل، تعلقہ مورو نوابشاہ میں قائم النور شوگر مل، ماتلی حیدر آباد میں قائم انصاری شوگر مل، بدین میں قائم آرمی ویلفیئر شوگر مل، بدین میں قائم باوانی شوگر مل، ٹھٹھ میں قائم دیوان شوگر مل، ڈگری شوگر مل، حیدر آباد میں قائم فاران شوگر مل، جے ڈی ڈبلیو گھوٹکی شوگر مل، حبیب شوگر مل نوابشاہ، خیر پور شوگر مل نوڈیرو، کھوسکی شوگر مل بدین، کرن شوگر مل کھوسکی بدین، لڑ شوگر مل سجاول، مٹیاری شوگر مل، مہران شوگر مل ٹنڈو الٰہ یار، میر پور خاص شوگر مل، مرزا شوگر مل بدین، نجمہ شوگر مل جھڈو، نوڈیرو شوگر مل، نیو دادو شوگر مل، پنگریو شوگر مل، رانی پور شوگر مل، سکرنڈ شوگر مل، سانگھڑ شوگر مل، سیری شوگر مل حیدر آباد، شاہ مراد شوگر مل ٹھٹھہ،سندھ آبادگار شوگر مل ٹھٹھہ، ٹی ایم کے شوگر مل حیدر آباد، ایس جی ایم شوگر مل اور تھرپارکر شوگر مل شامل ہیں۔مذکورہ 32 شوگر ملوں میں سے 9 شوگرملیں اومنی گروپ آف کمپنیز کے تحت چلائی جا رہی ہیں جو شوگر ملوں کے حساب سے ملک کا سب سے بڑا گروپ سمجھا جاتا ہے۔
حالیہ تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ اومنی گروپ کی جانب سے اربوں روپے کی اضافی آمدنی کیلئے شوگر ملوں کو سرکاری فنڈز حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ یہ فنڈ کہیں سبسڈی اور کہیں قرضوں کی صورت میں حاصل کیا گیا۔
جبکہ اس صورتحال میں کسان بورڈ پنجاب اور دیگر کسان تنظیمیں خاصی متحرک نظر آرہی ہیں اْن کا کہنا ہے کہ پنجاب کے کئی علاقوں کے گنے کے کاشتکاروں نے شوگر ملوں کی زیادتیوں ،اربوں روپے کے گنے کے واجبات دبانے ، کرشنگ سیزن لیٹ کر کے کسانوں سے اونے پونے گنا خریدنے کیلیے ایکا کیا ہوا ہے۔ شوگر ملوں نے گزشتہ سال کی نسبت گنے کی قیمتیں کم کرنے ،ملیں بند کرکے اور کاشتکاروں کے گنے کے واجبات ہڑپ کر کے پوری قوم کے اربوں روپے لوٹ لیے ہیںاور آئندہ کھربوں لوٹنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ اب شوگر مل مالکان گنے کی قیمت کم کرانے کیلیے شوگر ملیں چلانے میں تاخیر کر رہے ہیں اور شوگرملوں نے آپس میں اتحاد کرکے کسانوں کو لوٹنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔حکومت اور حزب اختلاف میں شامل تمام بڑی بڑی پارٹیوں کے سربراہ اوردیگر بڑے بڑے سیاستدان شوگر ملوں کے مالک ہیں،اس لیے انہوں نے ملوں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے ،لٹیری شوگر ملوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔شوگر مل مالکان اور حکومت کی کسان کش پالیسیوں کی وجہ سے کاشتکار کنگال ہو چکے ہیں اور گنے کے کرشنگ سیزن میں تا خیر سے آئندہ سال گندم کی پیداوار بھی ایک چوتھائی تک کم ہوجائے گی جس سے ملک میں قحط سالی کا راج ہوگا۔گندم کی پیداوار میں خود کفالت کے خواب چکنا چور کر دیے ہیں اور گندم کی پیدوار اور رقبے میں بھی تیس فی صد کمی ہوجائے گی۔عدالت عالیہ نے ہماری رٹ پر23 نومبر کو ملیں چلانے کا حکم دیا مگر شوگر ملوں نے عدالت کے احکامات بھی ہوا میں اڑا دیے۔
بہرکیف سندھ اور پنجاب میں گنے کی پیداوار کم ہونے اور حکومت کا چینی کو برآمد کرنے کی وجہ سے عنقریب چینی کابحران جنم لے سکتا ہے جس کا عملی ثبوت حالیہ مصنوعی بحران ہے جو ذخیرہ اندوزوں اور مل مالکان کی وجہ سے کئی دن تک بھی چل سکتا ہے۔ لیکن اس لڑائی میں یقینا نقصان کسان اور عوام کا ہوگا، کسان کو فروختگی کی رقم کئی سال انتظار کے بعد ملتی ہے اور عوام کے کروڑوں روپے تو ملوں نے دبائے ہوئے ہیں جس کے لیے کوئی وزارتی کمیٹی نہیں بنتی تاکہ صنعتکار برادری کو ادائیگی نہ کرنا پڑے ایسا صنعتکار حکمران کبھی نہیں کریں گے کہ اس میں ان کا اپنا مفاد بھی مجروح ہوتا ہے در اصل تو عوام ہی الو کی د م کی طرح ٹیڑھے ہیں صنعتکاروں کی پیسے کی چمک دیکھ کر انھیں منتخب کرتے ہیں پھر پورے پانچ سال رونا دھونا جاری رہتا ہے اور ہر چیز کی انھیں خریدنے کے وقت دوگنا چوگنا قیمتیں ادا کرنا پڑتی ہیں الیکشن کمیشن امیدواروں کے پیسے خرچ کرنے پر پابندی عائد کرکے پبلسٹی و جلسے وغیرہ کروانے کا خرچہ حکومت کے ذمہ ہو تبھی باشعور ایماندار نچلے اور درمیانے طبقوں کے افراد منتخب ہو کر جاگیرداروں وڈیروں، نودولتیوں، سود خور صنعتکاروں کو شکست فاش دے سکیں گے۔آجکل تو سبھی بڑی پارٹیوں میں مخصوص جاگیردار کرپٹ افراد کی ‘‘آنیاں جانیاں ’’ دیکھنے والی ہیں حتیٰ کہ نئی قیادت کے نعرے بھی ماند پرگئے ہیںان پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے دیگر پارٹیوں سے کر پشن کے حمام میں نہائے ہوئے افراد کو اپنے ہاں پناہ دینا شروع کردی ہے سارا آوے کا آوا ہی بگاڑ کا شکار ہے۔ اگریہی صورتحال رہی اور مل مالکان کی من مانیاں چلتی رہیں تو چینی ہی نہیں گندم چاول دالوں کے بحران در بحران جنم لیکر عوام کو یہ سبھی اشیاء مہنگے داموں خریدنی پڑیں گی اور سود خوروں کے موٹے حرام پیٹوں میں سرمایہ کے سانپ اوربچھو بکثرت جمع ہو تے رہیں گے غریب غریب ترہوتا رہے گاتاکہ ظالم نظام کے خلاف آواز تک کی بھی طاقت سے محروم ہوجائے۔
یہ فروری دو ہزار انیس کا سائرن ہے۔ اس دوران درجنوں کالمز صرف اشیاء خوردونوش پر لکھے ہیں، چینی اور آٹے کے مسائل ہمیشہ ان صفحات پر نظر نمایاں نظر آئے ہیں۔ یہ کالم حکمرانوں اور قارئین کی خدمت میں صرف حوالے کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔
فروری دو ہزار انیس کا سائرن اور نومبر 2021 کے حالات!!!!!!
Nov 02, 2021