روٹی کپڑا اور مکان کا دلکش نعرہ کی زبان پر اہم مطالبے کی شکل اختیارکر چکا

2018؁؁ء کے عام انتخابات میںقومی اسمبلی میںآزادامیدوارکی حیثیت سے الیکشن لڑنے والے ٹیکسلاشہرکی سادات برادری سے متعلق سرگرم نوجوان سیدحیدرعلی شاہ اپنے سیاسی مقاصدکی تکمیل اورعوامی خدمت کے سلسلہ کوآگے بڑھانے کی خاطرپیپلزپارٹی میںشمولیت اختیارکرچکے ہیں ان کایہ جذبہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کوایک بارپھرٹیکسلاواہ کینٹ کے علاقوںمیںماضی کی پیپلزپارٹی کی طرح مضبوط اورعوامی مقبولیت کی جماعت بنانے میںکامیابی حاصل کرینگے۔پیپلزپارٹی کاقیام 1967/68؁ء میںعمل میںلایاگیاتھا اوربانی چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹوکی سحرانگیزشخصیت کی بناء پراوران کی طرف سے مزدورں،کسانوں،طالب علموں،غریبوںاورمحنت کشوںکی حقوق کی بحالی کے موثرترین نعرہ کے باعث پیپلزپارٹی مغربی پاکستان میںبہت جلدتمام طبقات میںمقبول ترین سیاسی جماعت کی حیثیت اختیارکرگئی تھی،اور1970؁ء کے انتخابات کے موقع پرٹیکسلاواہ کینٹ،چکری چونترہ ضلع راولپنڈی کی قومی نشست پرتھانہ چونترہ سے متعلق اس دورکی معروف شخصیت ملک جعفرپیپلزپارٹی کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی میںاورٹیکسلاشہرسے متعلق کشمیری برادری سے متعلق شیخ محمدانورایڈوکیٹ ٹیکسلاواہ کی واحدصوبائی اسمبلی کی نشست پربڑی واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرگئے تھے۔دونوٖںشخصیات کے پاس پیپلزپارٹی کاٹکٹ تھا،اوربھٹوکی جانب سے مزدوروںکے حقوق کے تحفظ اوران کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ عام غریب لوگوںکیلیئے’’روٹی کپڑا،اورمکان‘‘کادلکش نعرہ ہرفردکی زبان پرمحبوب ترین ترانے کی طرح گونج رہاتھا،ٹیکسلاواہ کینٹ اورجڑواںعلاقے 1970؁ء کے دورمیںبہت زیادہ مذہبی لگاو،اوردینی اثرات رکھنے والے علاقوں میںشمار ہوتے تھے،اورمذہبی حلقوںمیںعلاقہ کی معروف علمی شخصیت حضرت مولاناحکیم محمدداودؒ،جوکہ جمیعت علماء اسلام کے ٹکٹ پرامیدوارتھے،مولاناحکیم محمدداوؒدکی شخصیت اپنے ذاتی کرداراورعوامی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنے علمی مقام ومرتبہ کے حوالے سے انتہائی قابل احترام شخصیت کادرجہ رکھتے تھے،اسی بناپرمذہبی حلقوںکے اثرورسوخ کوسامنے رکھتے ہوئے عام لوگوںکایہ خیال تھاکہ قومی اسمبلی میںمولاناحکیم محمدداودہی کامیاب ہونگے،لیکن جب نتائج آئے توواہ کینٹ کے علاقوںسے جوکہ مزدوروںاورمحنت کشوںکاگڑھ تھاتمام ترنتائج پیپلزپارٹی کے امیدواروںقومی اسمبلی میںملک محمدجعفراورصوبائی اسمبلی میںشیخ محمدانورایڈوکیٹ کے حق میںآئے،ذوالفقارعلی بھٹوکے اقتدارمیںآنے کے بعدپی او ایف ورکمین ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے پی او ایف کے محنت کشوںکوخصوصی سپورٹ کی گئی،اوراس دورکے مزدورلیڈرخان عبدالغفارخان مرحوم جن کوخداتعالیٰ کی ذات نے خطابت کادلنشین اعزازعطاء کررکھاتھا ،اور ان کی بروقت مسائل کی نشاندھی پرمبنی تسلسل کے ساتھ مدلل گفتگواس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکوبھی بہت پسندآئی،اورملک بھرمیںان کی گرجدارآوازوالی موثرتقاریرکے نتیجہ میںواہ کینٹ کے مزدوررہنماء خان عبدالغفارخان مرحوم کومحنت کشوںکی نمائندگی کے حوالے سے غیرمعمولی شہرت حاصل ہوگئی،1977؁ء کے عام انتخابات میںپیپلزپارٹی کے ٹکٹ پرعبدالقیوم بٹ کواورصوبائی اسمبلی کی نشست پرراجہ محمدافضل ایڈوکیٹ کوالیکشن کیلیئے نامزدکیاگیا،قومی اسمبلی کے الیکشن میںتوپیپلزپارٹی کے امیدواروںکے حق میںجونتائج سامنے آئے،اس پراس دورکی اپوزیشن جماعتیںجوکہ پاکستان قومی اتحادکے پلیٹ فارم سے الیکشن میںحصہ لے رہی تھیں،نے دھاندلی زدہ الیکشن قراردے کردوروزبعدمنعقدہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے عام بائیکاٹ کااعلان کردیا،جس کے بعد13مارچ 1977؁ء کوپاکستان قومی اتحادکے پلیٹ فارم سے بھٹوحکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کاآغازکردیاگیا،جس کانتیجہ بلآخرپانچ جولائی کوبھٹوحکومت کاخاتمہ اوراس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کادورملک میںاقتدارسنبھالنے کی شکل میںسامنے آیا،جوکہ 1988؁ء کے انتخابات تک کسی نہ کسی شکل میںجاری رہا،1988؁ء میںملک میںایک بارپھرسیاسی بنیادوںپرالیکشن منعقدکرانے کی صورت سامنے آئی،تومختلف جماعتوںمیںنئے گروپ اورنئے اتحادتشکیل دیئے گئے،85کے غیرجماعتی انتخابات میںالیکشن میںکامیاب ہونے والے صوبائی اسمبلی کے ممبرغلام سرورخان نئے تشکیل پانے والے اتحادوںاورگروپوںسے الگ ہوکراس وقت کے پیپلزپارٹی کے سرگرم رہنماء سردارفاروق لغاری اورراجہ شاہدظفرکے ہمراہ پیپلزپارٹی میںشامل ہوگئے،اگرچہ قومی اسمبلی کاٹکٹ پیپلزپارٹی نے پوٹھوہارکی بھاری بھرکم شخصیت کرنل حبیب خان کودیا،اورصوبہ میںان کے ساتھ غلام سرورخان کوٹکٹ دیاگیا،الیکشنی نتائج کے مطابق آئی جی آئی کے ٹکٹ پراس وقت کے امیدوارچوہدری نثارعلی خان قومی اسمبلی میںجیت گئے،جبکہ صوبائی اسمبلی میںغلام سرورخان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پرکامیابی حاصل کرگئے،اس وقت کی کامیابی نے غلام سرورخان کے سیاسی قدکاٹھ میںمزیداضافہ کی راہ کوہموارکردیا،اورپھروہ مسلسل کاوشیںکرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے،بلآخرغلام سرورخان قومی اسمبلی کاالیکشن بھی جیتنے میںکامیاب ہوگئے،غلام سرورخان نے 1988؁ء سے لیکرجنرل پرویزمشرف کے دورحکومت میں2002؁ء کے عام انتخابات تک اپنی وابستگی پیپلزپارٹی کے ساتھ رکھی،تاہم پرویز مشرف  دورمیںانہوںنے پیپلزپارٹی کاٹکٹ چھوڑکرآزادحیثیت میںالیکشن جیتا، اور پھر بعدمیںمسلم لیگ ق میںشامل ہوکرپرویزمشرف کی کابینہ میںوفاقی وزیرکامنصب پاگئے،جنرل ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے ادوارمیںپیپلزپارٹی کوجہاں دوسرے شہروںاورعلاقوںمیںاپنی سیاسی قوت میںکمزورہوناپڑا،وہاںبے نظیربھٹوکے دومرتبہ ادوار میںبھی لاتعدادغلط فیصلوںکے باعث پیپلزپارٹی کی سیاسی اورعوامی قوت کومضبوط اورمستحکم نہ کیاجاسکا،مخلص ورکراورجان مال کی قربانیاںدینے والوںکوذوالفقارعلی بھٹوکے دیئے گیئے نعرے کی روشنی میںوہ مقام نہ دیاجاسکا،جس کے مخلص ورکرزاوررہنماء حقدارتھے،ملک میںجناب آصف علی زرداری صدر مملکت بنے،اورپھریوسف رضاگیلانی کے بعدراجہ پرویزاشرف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ،لیکن ٹیکسلاواہ کینٹ کے علاقوںمیںپیپلزپارٹی کی وہ سیاسی قوت اورعوامی مقبولیت بحال نہ ہوسکی،جس کی مضبوط بنیادیںذوالفقارعلی بھٹونے رکھی تھیں ،لاتعداد مخلص اورنظریاتی وابستگی رکھنے والے ورکرزاپنی زندگیوںکامقررہ وقت پوراکرنے کے بعداس جہان فانی سے رخصت ہوگئے،موجودہ حالات میںملک نجیب الرحمن ارشد،سیدضیاء حسین شاہ،ملک شاہدنواز گجر ،راجہ ظریف ستی،ملک آصف محمود،جاویدکریم قریشی، سردارشانی شاہ،شیخ ناصرمحمود، شوکت ایوب چھاچھی ،راجہ عامرراٹھور، اوربعض مزدورمحنت کش لیڈرنا مساعد حالات کے باوجودپیپلزپارٹی کاپرچم تھامے ہوئے ہیں،پیپلزپارٹی کے نظریاتی رہنماء راجہ محمدخسرو ،اور جیالا گروپ کے کمانڈرجاوید میردرویش تودنیاسے چلے گئے،مگران کے ایک ساتھی راجہ مشتاق کشمیری جوکہ پیپلزپارٹی کے ساتھ وفاوںکی روشن داستان ہیں،مگرکینسرجیسے موذی مرض میںمبتلاء ہوکربستر علالت پرہیں،حالیہ کنٹونمنٹ بورڈکے انتخابات میںجاویدکریم قریشی اورسردارشانی شاہ سمیت مخلص اوربہادر رہنماوںنے کارکنوںکے ہمراہ بعض حلقوںسے انتخابات میںحصہ لیا،لیکن وہ کامیابی تونہ حاصل کرسکے،مگرپیپلزپارٹی کے پرچم کوبلندرکھنے میںسرگرم عمل رہے،ایسے حالات میںجب پارٹی اقتدارمیںنہ ہواورقیادت کی طرف سے بھی عام کارکنان کوعزت وتوقیرکے پرخلوص جذبات سے نوازانہ جارہاہو،توپھرپارٹی کوعوامی سطح پرمقبول بناناانتہائی مشکل کام تصور کیا جاتاہے، موجودہ حالات میںٹیکسلاکے سیدزادے حیدرعلی شاہ کااپناجوان خون پیپلزپارٹی کی سیاسی قوت کومضبوط بنانے پرلگانے کاجذبہ قابل تعریف ہے،متذکرہ نوجوان کاکہناہے کہ میںڈرائینگ روم کی سیاست  پریقین نہیںرکھتا،بلکہ میدان عمل میںنکل کرعوام کے مسائل کوسمجھنے اوران کے مسائل کے حل کیلیئے عملی اقدامات اٹھاناعوامی خدمت سمجھتاہوں،انہوںنے کہاکہ ٹیکسلاواہ کینٹ کے علاقوںمیںپیپلزپارٹی کابکھراہواشیرازہ ایک پلیٹ فارم پراکٹھاکرنے کی کاوش لے کرمیدان میںآچکاہوں،اورٹیکسلاکی معروف شخصیت ملک شاہدنوازاورواہ کینٹ کی معروف شخصیت سردارشانی شاہ جوکہ دونوںشخصیات پیپلزپارٹی کاقیمتی سرمایہ ہیں،کے تمام تراختلافات ختم کرواکے تمام دوستوںکوپیپلزپارٹی کے ایک ہی پلیٹ فارم پراکٹھاکرکے پارٹی کی سیاسی قوت کوموثراورطاقت وربنانامیری زندگی کامشن بن چکاہے،اوراس سلسلہ میںمرکزی اورصوبائی قیادت تک بھی میرے رابطے مکمل ہوچکے ہیں،راجہ پرویزاشرف اورفضل کریم کنڈی سمیت دیگرتمام رہنماوںسے ملاقاتیں کرچکاہوں،اورعنقریب ٹیکسلاواہ کینٹ کی سطح پرپارٹی کوسنبھالادینے کی خاطربڑے پروگرام کے انعقادکوعملی شکل دی جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن