حالات کی نئی کروٹ 

29 اکتوبر کو چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر ملک بھر میں مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج کیا گیا ، ملک کے کونے کونے میں جیالے سڑکوں پر نکلے اور عوام کو ساتھ لیکر نکلے ، ساحل سمندر سے  خنجراب کے پہاڑوں تک بلاول بھٹو آئیگا روزگار لائے گا کے فلک شگاف نعرے گونجتے رہے ۔ یہ نعرہ اس لیئے قابل اعتبار ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کی قیادت جب بھی اقتدار میں آئی ہے تو عوام کیلئے روزگار کے دروازے کھولے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ پیپلزپارٹی آتی ہی عوام کی خوشحالی کیلیئے اور ہر بار پیپلزپارٹی کی قیادت کا یہی جرم بن جاتا ہے ۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگر حقیقیت یہ ہے 2013 سے عام آدمی کی معاشی حالت کمزور ہی ہوئی ہے مگر ’’پاشا سونامی‘‘ نے سفید پوش طبقے کو بھی غربت کی لکیر سے نیچے لاکر کھڑا کردیا ہے ۔  آپس کی بات ہے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تو رواں سال مارچ میں سینیٹ انتخابات میں عمران خان کے حلقہ اقتدار قومی اسمبلی میں سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کرواکر وزیراعظم کے پاوں سے زمین نکال دی تھی اگرچیئرمین پیپلز پارٹی کی حکمت عملی پر عمل کیا جاتا تو یقینا حالات مختلف ہوتے ! یہ مولانا فضل الرحمن ہی بتاتا سکتے ہیں کہ کس ایجنڈہ کے تحت انہوں نے غصے میں  آکر لانگ مارچ کو اسمبلیوں سے استعفوں سے نتھی کردیا اور پی ڈی ایم سے روح ہی نکال دی ، مولانا فضل الرحمن کی اپنی جماعت ہے انہیں جمہوری حق ہے کہ ایسے فیصلے کریں جو ان کی جماعت کے مفاد میں ہوں جیسے پرویز مشرف کے ایل ایف او کو آئین سے نتھی کرکے انہوں  قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا منصب لیا تھا غیر اصولی ہی سہی مگر مولانا کی نظر میں یہ ان کی سیاسی کامیابی تھی۔
آج نہیں تو کل تاریخ مولانا صاحب سے ضرور سوال کریگی کہ عمران خان  حکومت کو ختم کرنے کیلئے ان کے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں چند روز کے دہرنے کے پیچھے کون تھا؟ مجھے کوئی خوش فہمی نہیں کہ مولانا صاحب کبھی ان سوالات کا جواب دینگے مگر قوم آج مہنگائی کے جس عذاب سے گذر رہی ہے اس کی ذمہ داری بحرحال مولانا جی کو بھی قبول کرنا پڑے گی ۔ قوم آج جس بدترین  مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بدحالی کا سامنا کر رہی ہے اس کے آدھے ذمہ دار وہ بھی ہیں جنہوں نے حقیر مفادات کی خاطر پی ڈی ایم پر قبضہ کرکے پیپلزپارٹی اور اے این پی کو راہیں الگ کرنے پر مجبور کیا ۔ 29 اکتوبر کو چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج کرنے کی ہدایت کی تو نہ صرف سندھ ۔پنجاب، بلوچستان اورخیبر پختون خوا بلکہ کشمیر اورگلگت بلتستان کے ہر شھر اور قصبوں سے  میں ہزاروں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکل آئے ، اتوارکے دن اسلام کے مشہور کاروباری مرکز سپر مارکیٹ میں اپنے بیٹے آکاش کی آنکھوں کا معائنہ کروا رہا تھا کہ اچانک سڑک سے پانچ کاروں کے جلوس میں ڈیک پر بجنے والے نغمے جب آئے گا عمران خان نے ڈاکٹر صاحب کو نرم سا غصہ دلایا تو کہنے لگے سر اندازہ کیجئے ان کو شرم نہیں آتی ؟  جب  میں کلینک سے باہر آیا تو میرے دوست قربان حیدرکہنے لگا پی ٹی آئی کا عجیب جلوس تھا پانچ گاڑیوں کے جلوس میں شامل ایک بندہ کہہ رہا تھا ہمیں گالیاں دو ،ہمیں گالیاں دو ، ہم گاڑی میں بیٹھ کر اسلام کے سیونتھ اوینیو کے شاہراہ پر آئے  تو پانچ کاروں پر مشتمل جلوس کھڑا تھا ایک بندہ رکس کر رہا تھا میں ان سے پوچھا آٹا کتنے روپے کا کلو ملتا ہے رکس کرنے والا بندہ بولا بڑے دنوں کے بعد دہاڑی ملی ہے وہ بھی عمران خان کیلئے ناچنے کی ، تھوڑی دیر غور سے دیکھنے کے بعد مجھے پہچان کر کہنے لگے صاحب بلاول صاحب آئیں گے تو ہمیں بھی عزت کی روٹی ملے گی ۔

ای پیپر دی نیشن