نواب شاہ( محمد اسلم منیر/نامہ نگار)سال 2013 میں حکومت سندھ کے ایک اعلامیہ میںصوبہ بھر کے تمام اسلحہ ہولڈرز کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے کمپیوٹرائز لائسنس کے حصول کے لئے موجوزہ فارم پر ایک ہزار روپئے فیس کے ساتھ درخواست دیں اور جو اسلحہ ہولڈر ایسا نہیں کریگا اِس کا لائسنس منسوخ کردیا جائیگا ۔ نواب شاہ ضلع میں اسلحہ ہولڈرز کی جانب سے 75000درخواستیں موصول ہوئیں،مگر ماہ اکتوبر 2021ء تک محض 16000 لائسنسوں کی نئی کاپیاں بن کر آئی ہیں،اِن میں میں بھی بیشمار غلطیوں کی وجہ سے صرف8000 لائسنس، اسلحہ ہولڈرز لے جا سکے ہیں۔نواب شاہ ضلع سندھ کا اتنا بڑا ضلع نہیں ہے حیدرآباد ،سکھر ،لاڑ کانہ اور دیگر اضلاع نواب شاہ سے بڑے ہیں ،صوبہ سندھ کے 30اضلاع ہیں اگر اوسطً ہر ضلع میں جمع ہونے والی درخواستوں کی تعداد 75ہزار ہی لگا لی جائے تو 30x75000=2250000یہ تعداد درخواست گذاروں کی بنی اَب اگر اِس تعداد کو ایک ہزار سے ضرب دی جائے تو یہ رقم سوا دو ارب روپئے بنتی ہے جو کہ آٹھ سال قبل اسلحہ ہولڈرز کی جیبوں سے نکلوالی گئی تھی، مگرکمپیوٹرائزلائسنس آج تک انہیں نہیں مل سکے؟ یہ کمپیوٹرائزلائسنس نادرانے بنانے تھے باوثوق ذرائع کے مطابق نادرا کو لائسنس کی کاپی بنانے کے لئے ادائیگی ہی نہیںکی گئی جس کی وجہ سے اسلحہ ہولڈرز کمپیوٹرائزلائسنس کی کاپی کے حصول سے محروم ہیں،اتنی بڑی رقم کہاں گئی اور کس مد میں استعمال کر لی گئی یہ بات حکومت سندھ کے لئے بڑا سوالیہ نشان ہے؟ اسلحہ ہولڈر پرانے بوسید ہ لائسنسوں کی کاپیوں کو ہی کاغذ لگا کر اْن کی ہر سال تجدید کروانے پر مجبورہیں صوبہ سندھ اور خصوصاًنواب شاہ کے اسلحہ لائسنس ہولڈرز نے چیف جسٹس آف پاکستان ،چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور وزیر اعلیٰ سندھ سے اپیل کی ہے کہ وہ از خود نوٹس لیکر اِس عوامی مسئلہ کو حل کروائیں اور اس امر کی تحقیقات کروائیں کہ 8 سال کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود اسلحہ لائنس ہولڈروں کو ادائیگی کے باوجود کمپیورائزڈ لائنس کیوں نہیں مل سکے ہیں ،ان سے وصول کی گئی کثیر رقم کس مد میں اور کہاں خرچ کی گئی ہے ۔