لاہور (نمائندہ خصوصی) سربراہ مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ ہمیں اپنے قومی اداروں پر فخر ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے اہم معاملات کو اجاگر کیا۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے قومی سلامتی، امن اور معاشی صورتحال سے آگاہ کیا۔ پریس کانفرنس کو غلط رنگ دینا ملکی مفاد میں نہیں ہوگا۔ لانگ مارچ سے فساد، انارکی نہیں پھیلنی چاہیے۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی باتوں کی نفی ممکن نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کا چرچا غلط رنگ میں عوام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی بتائی ہوئی تفصیلات میں جا کر دیکھا جائے تو اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی گئی ہے۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ یہ پریس کانفرنس کسی اور کی ہونی چاہئے نہ کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی ہو۔ بلکہ حقیقت میں اس پریس کانفرنس کو دیکھا جائے کہ جو نکات انہوں نے بیان کئے ہیں‘ سوائے ان کے کہنے پر کے یہ ایک ادارے کے سینئر افسر نے بول کر مہر لگا دی ہے۔ حقیقت میں یہ باتیں ڈی جی آئی ایس آئی جیسا رتبے والا آدمی ہی کر سکتا تھا اور کوئی ترجمان اس کو بیان نہیں کر سکتا تھا۔ اس پریس کانفرنس میں بعض انکشافات انہوں نے کئے ہیں جس کی کوئی شخص نفی نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران جن باتوں کی نشاندہی کی ہے اگر کوئی سیاستدان یا کوئی پاکستانی اس کو غلط تاثر دیں تو یہ ملکی مفاد میں نہیں ہو گا‘ اس سے ملکی اور غیر ملکی دشمن کو پاکستان کے خلاف غلط بات کرنے کا جواز ملتا ہے۔ لانگ مارچ کو اسلام آباد لانا پی ٹی آئی کا جمہوری حق ہے لیکن اس سے ملک میں فساد یا انارکی نہیں پھیلنی چاہئے جس سے ملکی یا غیر ملکی دشمن فائدہ اٹھا سکے۔ لفظ غدار کو اپنی منشا کے مطابق استعمال کرتے ہیں، درحقیقت ہمیں غداری کی تشریح کرنی چاہئے کہ غدار کون ہیں‘ کس کو کہا جا رہا ہے اور کہنے والا کون ہے۔ ملاقاتیں تو ہر وقت ہر زمانے میں مختلف مواقع اور واقعات میں فوج اور سول اداروں کے چھوٹے اور اعلیٰ افسروں کے درمیان ہوتی رہتی ہیں جس میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کی ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ قومی ایشوز پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران ہوتے ہیں‘ کیا یہ ممبران اسمبلی سیاستدان نہیں ہوتے؟۔ ملاقاتوں میں قومی اور لوکل ایشوز جس میں ملکی سلامتی‘ ناگہانی آفات اور انتخابات پر بات ہوتی ہے۔ ان ملاقاتوں میں اپنے رتبوں کے مطابق سیاستدانوں سے ملتے ہیں اور اپنے تجزیے اور پالیسی پر سیاستدانوں کو آگاہ کرتے ہیں اور سیاستدانوں کی رائے لیتے ہیں جو کہ مکمل طور پر عوامی ایشو ہوتے ہیں۔ تنقید کرنے والے پہلے ملکی مفادات کو دیکھیں‘ ایسا کر کے ملکی اور غیر ملکی دشمن فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ بات کرنے سے پہلے دل و دماغ سے سوچا کریں۔ ہمیں اپنی فوج اور انٹیلی جنس اداروں پر مکمل یقین ہے اور اداروں پر فخر ہے اور ہم اداروں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔