es738
چھاتی کا سرطان اور مینار کینسر ہسپتال ملتان کا کردار
تنویر حسین
اکتوبر کا مہینہ خواتین میں ’’بریسٹ کینسر‘‘کے بارے میں شعور وآگہی بیدار کرنے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔چھاتی کا سرطان عورتوں میں پایا جانے والا عام اور جان لیوا مرض ہے۔لاعلمی،بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے متعدد خواتین چھاتی کے سرطان کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔’’کینسر یا سرطان‘‘ ایک ایسا خطرناک لفظ ہے جسے سننے والا ایک دم چونک اٹھتا ہے اور زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے۔وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اب زندگی کی رعنائیوں نے اس سے منہ موڑ لیا ہے۔قرآن مجید میں واضح ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو‘‘ایک اور جگہ ارشاد فرمایاکہ ’’جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی اللہ مجھے شفا دیتا ہے‘‘۔گویا مایوس تو وہ ہوتا ہے جس کا رب نہیں ہے۔رب اللعالمین اپنے ایک بندے سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیارکرتا ہے ۔ایک زمانہ تھا جب کینسر کو لاعلاج قرار دیا جاتا تھا۔ مگر انسان نے یہ ثابت کیا ہے کہ نیوکلیئر سائنس کو تباہی کے لیے ہی نہیں بلکہ فائدہ مند مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔نیوکلیئر میڈیسن نے ’’یاس‘‘ کو ’’آس‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو کینسر کے ستائے مریضوں کی پھیکی خوشیوں میں دوبارہ رنگ بھر دیتا ہے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن مختلف شعبوں میں کام کررہی ہے۔صحت کے شعبے میں خاص طور پر کینسر کی تشخیص اور علاج کے لیے 1960ء سے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے اب تک پورے پاکستان میں 19کینسر ہسپتال قائم کئے ہیں جن سے تقریباً پاکستان کے80فیصد کینسر کے مریض استفادہ کرر ہے ہیں۔ملتان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن اینڈ ریڈیو تھراپی جسے عرف عام میں ’’مینار‘‘(MINAR)کینسر ہسپتال ملتان کہا جاتا ہے 1968ء سے جنوبی پنجاب کے کینسر کے مریضوں کی تشخیص اور علاج کے لیے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔یہ ادارہ پنجاب حکومت سے علیحدہ ہے اور نشتر ہسپتال ملتان کے اندر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیر سایہ کام کررہا ہے ۔جس میں جدید مشینری لگائی گئی ہے تاکہ کینسر کی جلد اور فوری تشخیص اور علاج ممکن ہوسکے۔مینار کینسر ہسپتال ’’نشتر ہسپتال‘‘ کی بلڈنگ میں ضرور ہے لیکن اپنی ایک الگ تھلگ پہچان رکھتا ہے۔یہ ہسپتال جدید مشینری جیسے LINEAR ACCELATORسے بھی آراستہ ہے جس کی وجہ سے اب جنوبی پنجاب کے کینسر کے مریضوں کو تمام جدیدترین سہولیات مینار کینسر ہسپتال ملتان میں ایک ہی چھت تلے میسر ہیں اور سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی پوری ٹیم دن رات دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔
عام طور دیکھا گیا ہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو علاج کے لیے دن بھر خوار ہونا پڑتا ہے دیر تک لمبی لائنوں میں لگ کر اپنی باری کاانتظار کرنا پڑتا ہے لیکن مینار کینسر ہسپتال میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔موجودہ ڈائریکٹر مینار کینسر ہسپتال ملتان ڈاکٹر محمد سعید اخترجو کہ نیوکلیئرمیڈیسن میں پی ایچ ڈی کا اعزاز بھی رکھتے ہیں اور تھائی رائیڈ سپیشلسٹ ہیں نے ایک ایسا مربوط اور منظم طریقہ کار متعارف کروایا ہے جسے دیکھنے والا ڈاکٹر محمد سعید اختر کی انتظامی صلاحیتوں کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ڈاکٹر محمد سعید اختر نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مینار کینسر ہسپتال کے نہ صرف بیرونی ماحول کو جازب نظر بنادیا ہے بلکہ اندرونی ماحول بھی قابل دید ہے۔ گرمیوں میں ٹھنڈک اور جاڑے کی سردی میں گرم ماحول میں مریض سکون سے آرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔اس ہسپتال سے علاج کروانے والے ہر مریض کی باقاعدہ فائل تیار ہوتی ہے۔ معقول سرکاری فیس کے عوض میموگرافی،بائیوپسی سیمپلنگ،الٹرا ساؤنڈ،ہڈیوں کے اور دیگر ضروری ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
چھاتی کے سرطان کی تشخیص میمو گرافی سے کی جاتی ہے رپورٹ مثبت آنے پر نمونہ حاصل کرکے آغا خان بائیوپسی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ یہ چیک کرنے کے لیے کہ کیا کینسر ہڈیوں کو تو نہیں چھو رہا ہڈیوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔مختلف مراحل میں سے گزرنے کے بعد مینار کینسر ہسپتال کے آن کالوجسٹس یعنی کینسر کے ماہرین ڈاکٹرز فامیہ عبداللہ، ڈاکٹر اللہ رکھا، ڈاکٹر اشارت شہرود، ڈاکٹر قراۃ العین، ڈاکٹر عبدالمتین اور دیگر ڈاکٹرز تشخیص ہونے پر مریض کا علاج کرتے ہیں۔ زیادہ مناسب طریقہ علاج کیموتھراپی کا ہے جس کے مختلف سیشن ہوتے ہیں۔سیشن کا تعین کینسر کی نوعیت کے مطابق کیا جاتا ہے۔کیمو تھراپی کے بعد بریسٹ کا آپریشن کرکے کینسر کو جڑ سے ختم کیا جاتا ہے جس کے بعد اگر ضروری ہو تو 15روز مسلسل ریڈی ایشن کی جاتی ہے۔عام طور پر ابتدائی سٹیج پرتشخیص شدہ چھاتی کے سرطان کی مریض خواتین ان مراحل سے گزرنے کے بعد صحت یاب ہوجاتی ہیں۔تاہم کچھ مریض خواتین کو تادم حیات میڈیسن چلانے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور کچھ مریضوں کو ہر سہ ماہی کے بعد Follow Up اور ہر سال بعد ماہ اکتوبر میں میمو گرافی تجویز کی جاتی ہے۔تاکہ کینسر کے جراثیم دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی ہدایات کی روشنی میں ماہ اکتوبر کے دوران مینار کینسرہسپتال مختلف یونیورسٹیوں میں خواتین میں چھاتی کے سرطان کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے ’’سیمینارز‘‘ کا اہتمام کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے امسال بھی’بریسٹ کینسر آگاہی سیمینار‘‘ میںیونیورسٹیوں کے پروفیسرحضرات کنسلٹنٹ ریڈیالوجسٹ،ہیڈ آف بریسٹ کلینک ڈاکٹر روبینہ مختار اور کینسر اسپیشلسٹ ڈاکٹر فامیہ عبداللہ نے شرکائے سیمینار کو چھاتی کے سرطان کی وجوہات، علامات اور ان کے علاج کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔کینسر کی ماہر ڈاکٹر فامیہ عبداللہ نے بتایا کہ سب سے پہلے اپنے اوپر توجہ دیں آپ اپنے لیے بہت اہم ہیں۔اپنے آپ پر توجہ دینے کی صورت میں آپ کو اپنے اندر ہونے والی جسمانی طور پر یا کوئی بھی تبدیلی بہت جلدی محسوس ہوجائے گی۔ بریسٹ کینسر کے حوالے سے خواتین شرماتی ہیں اور جھجھک محسوس کرتی ہیں۔سیمینارز کا مقصد اسی شرم اور ہچکچاہٹ کو ختم کرنا ہے تاکہ خواتین اپنے جسم کے اس حصے سے آگاہ رہیں کہ کوئی گلٹی تو نہیں بن رہی یا کوئی غیر معمولی تبدیلی تو رونما نہیں ہورہی۔یہ علامات ہیں کینسر کی ایسی صورت میں پیروں فقیروں کے تعویز گنڈوں کا سہارا لینے کی بجائے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔خواتین میں ایسٹروجن کی وجہ سے بریسٹ کینسر ہونے کا رسک زیادہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اگر ماہواری جلدی شروع ہوجائے یا بہت دیر سے ختم ہو تو ایسی صورت کو بھی خطرے کی گھنٹی سمجھا جائے۔بریسٹ فیڈنگ کا نہ کروانا اور دیر سے حمل بھی بریسٹ کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں۔بریسٹ کینسر میں موٹاپے کا بھی رول ہے۔متوازن غذا استعمال نہ کرنے سے بھی بریسٹ کینسر کا خدشہ ہوسکتا ہے۔2021ء کے اعدادوشمار کی بات کی جائے تو مینار کینسر ہسپتال میں تقریباً کینسر کے تین ہزار مریض رجسٹرڈ ہوئے اور ان کے اندر 860مریض بریسٹ کینسر کے تھے۔ہیڈ بریسٹ کلینک مینار ملتان ڈاکٹر روبینہ مختار نے بتایا کہ بریسٹ کینسر صرف شادی شدہ خواتین میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ غیر شادی شدہ خواتین بھی اس سے متاثر ہوسکتی ہیں۔