زندگی موت کے درمیان معلق کردینے والا مرض

’’ابھی جان باقی ہے ‘‘
ورلڈ اسٹروک ڈے 
عبدالحکیم غوری

بیماریوں کے پھیلائو اور ملک میں غربت کے لحاظ سے آبادی اور وسائل میں پایا جانے والا فرق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ ملکی آبادی کا ہر تیسرا فرد کسی نہ کسی مرض کا شکار ہے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی وہ سہولتیں مفقود ہیں جس کا دنیا کے دوسرے ملکوں سے کوئی موازنہ ہی نہیں ۔ 29۔اکتوبر کوہر سال ورلڈ STROKE DAY منایا جاتا ہے ،جس میں لوگوں کو بیماری سے بچاؤ اورصحت مند زندگی کے بارے میں رہنمائی دی جاتی ہے۔  STROKEکو آپ فالج کا  حملہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس کے بعد انسان نہ زندوں میں رہتا ہے اور نہ مردوں میں ، زندگی کی ساری مصروفیت صرف چند منٹ میں ختم ہوجاتی ہیں اور انسان آسمان سے زمین پر آجاتا ہے ۔ فالج کے حملے کے  بعد ابتدائی تیس منٹ انتہائی اہم ہوتے ہیں جو مریض کی آئندہ کی صحت اور زندگی کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں ۔ دس منٹ میں ڈاکٹر کو یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ یہ مریض اسٹروک کا ہے دل کا نہیں صحت کی سہولتوں کی باتیں کرنے والی حکومت سے عرض ہے کہ پورے پاکستان میں صرف ڈھائی سو نیوروفزیشنز یعنی ماہر اعصاب و پٹھہ ہیں ۔ جن میں صرف 50 14کروڑ کے صوبے میں اور باقی دوسو کو آپ صوبہ سندھ ، کے پی کے ، بلوچستان ، گلگت اور اسکردو میں شمار کر سکتے ہیں ۔ دوسری طرف فالج کے مرض میں شدت سے اضافہ ہورہا ہے ۔ ہر سال ہزاروں نئے مریض سامنے آرہے ہیں ۔ ہمارے ملک میں اس وقت جس قسم کا گھی اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت ہور ہی ہیں وہ اسٹروک کا باعث بن رہی ہیں ۔ ورزش نہ ہونے کے برابر ہے چھوٹے شہروں کو تو چھوڑ یئے بڑے شہروں میں بھی آپ کو نیوروفزیشنز نہیں ملتے ۔ نیوروسرجن دماغ کی سرجری کرتے ہیں اور نیور وفزیشن ادویات اور ورزش کے ذریعے علاج کرتے ہیں اس میں اعصاب وپٹھہ ، فالج اور کئی دیگر بیماریاں شامل ہیں ۔تحصیل کی سطح کے کسی بھی بڑے ہسپتال میں ایک بھی نیوروسرجن ، نیوروفزیشن نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ 22کروڑ سے زائد کی آبادی کیلئے صرف ڈھائی سو نیوروفزیشنز ہیں ۔ کیا کبھی کسی حکمران نے سوچا ہے کہ پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں جب کسی کو اسٹروک ہوتا ہوگا تو وہ بے چارہ کیا کرتا ہوگا؟
 نشتر ہسپتال ملتان میں اسٹروک کے مریضوں کا جو ہجوم ہے وہ ناقابل بیان ہے ۔ یہاں کے ڈاکٹرز صبح سے دوپہر تک  سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو دیکھتے ہیں اور رات گئے اسٹروک وغیرہ کے مریض نجی کلینکوں پر  جانے کیلئے  مجبور دیکھتے جاتے ہیں ۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک شعبہ صحت میں کوئی ایسا ٹیکنو کریٹ نہیں آیا جو شعبہ صحت کی ترجیحات کا تعین کرسکے اور اس کا قبلہ درست کرسکے ۔ آئیے کچھ تلخ حقائق بیان کرتے ہیں ۔ پاکستان میں ہر سال 9ہزار بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جن کے پیدائشی طور پر ہونٹ اورتالو کٹے ہوتے ہیں جن کی سرجری پلاسٹک سرجن کرتا ہے ۔پاکستان میں صرف 140پلاسٹک سرجنز ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں سالانہ صرف 2ہزار ہونٹ اور تالو کٹے بچوں کی سرجری ہوتی ہے اور باقی سات ہزار بچے یا تو پرائیویٹ طور پر سرجری کراتے ہیں ۔ با امر مجبوری کوئی شہری  پرائیویٹ طور پر جب سرجری کروائے گا اس کو 16فیصد ٹیکس بھی دینا پڑے گا۔ بجائے اس کے حکومت ہونٹ اور تالو کٹے ، تیزاب ، پانی ، بجلی اور آگ سے جل جانے والوں کو علاج معالجے کی سہولتیں دیتی ان کیلئے مزید سینٹرز بنائے جاتے یا پھر پرائیویٹ سیکٹرز میں سہولتیں فراہم کرتی ، ایسے بچوں اور زخمیوں کو علاج کے اخراجات برداشت کرتی ، حکومت سرکاری ہسپتالوں میں صر ف 2ہزار بچوں کو علاج کی سہولت فراہم کررہی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ کوئی حادثہ بھی  پیش آسکتا ہے ۔ پاکستان میں سالانہ 9لاکھ افراد آگ ، پانی ، بجلی اور تیزاب سے جل جاتے ہیں ۔ W.H.Oکے مطابق پاکستان اور بھارت میں منہ کا سرطان وبائی صورت اختیار کرگیا ہے اور سائوتھ ایشیاء میں پاکستان اور بھارت اس سرطان میں پہلے نمبر پر ہیں ۔ منہ کے اس سرطان کی سرجری بھی پلاسٹک سرجن کرتے ہیں ۔ پاکستان دنیا کا چوتھا ملک ہے جہاں ہونٹ /تالو کٹے بچے پید اہوتے ہیں ۔ پہلے نمبر پر چین ، دوسرے پر بھارت ، تیسر ے پر انڈونیشیا اور پانچویں نمبر پر امریکہ ہے ۔ 
  

ای پیپر دی نیشن