راعنا کہنے کی ممانعت: مدینہ منورہ کے یہودیوں کے بغض وعناد کا ایک اورپہلو بھی سورہ بقرہ میں پیش کی گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس میں گفتگو فرماتے تو بسااوقات یوں ہوتا کہ کسی صحابی کو آپ کاکوئی کلمہ مستحضر نہ رہتا ، یاوہ بغور نہ سن پاتے تو آپ کی بارگاہ عالیہ میں عرض کرتے راعنا یا رسول اللہ! اے اللہ کے رسول ہماری رعایت فرمائیے ، مقصود یہ ہوتا کہ اپنے کلام کو دہرانے کی زحمت فرمائیے۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کمال شفقت سے اپنی بات دوبارہ دہرادیتے ، سوئے اتفاق سے یہود کی لغت میں یہ لفظ بدعا کے لیے تھا اوراس کا معنی تھا، سنو تمہاری بات نہ سنی جائے ، انہوںنے اس موقع کو غنیمت جانا اورکہنے لگے ہم ان کو تنہائی میں اورپیٹھ کے پیچھے بدعاء دیتے تھے ، اب لوگوں کے عین درمیان میں ، برسر مجلس ان کو بدعا دینے کا موقع مل گیا ہے ، وہ بھی آپ کو مخاطب کرراعنا کہتے اورآپس میں ہنستے تھے۔حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کی لغت کا علم تھا، جب انھوںنے چند بار یہود کی زبان سے بھی یہی لفظ سنا تو وہ سمجھ گئے کہ ان کا مقصد ومدعا ء کیا ہے ، انہوںنے کہا :تم پر اللہ کی لعنت ہو اگر میںنے آئندہ تم لوگوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک لفظ کہتے ہوئے سنا تو میں تمہاری گردن اڑا دوں گا، یہود نے کہا کیا تم لوگ یہ لفظ نہیں ادا کرتے ، اس موقع پر اللہ تبار ک وتعالیٰ کے یہ حکم نازل ہوا کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں دومعنی لفظ بھی استعمال کرنے سے گریز کرو، راعنا کہنے کی بجائے کہو ’’انظر نا‘‘یا رسول اللہ ہم پر نظر کرم والتفات فرمائیے تاکہ کسی تیرہ بخت کو یہ موقع ہی نہ ملے کہ وہ صحیح لفظ کو غلط استعمال کرے اوراس سے بھی بہتر یہ ہے کہ سماعتوں کو میرے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف پوری طرح متوجہ رکھو، گوش برآواز ہوکر اوردلوں کو کشکول بناکر بیٹھو تاکہ آپ کو باربار زحمت دینے کی نویت ہی نہ آئے۔
ابن جریر نے یہ بھی روایت کیا ہے کہ وہ زبان موڑ کر راعنا کی جگہ راعن کہتے تھے ، اس کے معنی خطا کے ہیں، ایک روایت ہے کہ راعی چرواہے کو کہتے ہیں وہ اسے اضافت سے ملادیا کرتے تھے۔
مقرب بارگاہِ الٰہی ہونے کا زعم :یہود کو اپنی تمام ترتاریخی ،فکری اوراعتقادی لغزشوں کے باوجود بھی یہ رغم تھا کہ وہ اللہ رب العزت کے بڑے ہی مقرب ہیں اورسب سے برگزیدہ قوم ہیں ، وہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں عذاب سے کیا سروکار اگر عذاب آخرت نے ہمیں گرفت میں لیا بھی تو گنتی کے چند ہی دن ہوں گے ، ان سے پوچھا گیا کہ کیا تم نے اللہ ذوالجلال والا کرام سے اس امر کا کوئی وعدہ لیا ہوا، اوراگر تمہیں اپنے غیر مشروط طور پر سرخرو ہونے کا اتنا ہی یقین ہے تو ذرا موت کی تمنا تو کرکے دکھائو ساتھ ہی قرآن یہ پیش گوئی بھی کردی کہ وہ کسی بھی صورت میں موت کی تمنا نہیں کریں گے ، بلکہ یہ لوگ تو زندگی اوراس کی عارضی لذتوں کے سب سے زیادہ حریص ہیں۔