بھیگی بلی۔۔۔

Nov 02, 2022

کئی دفعہ انسان اپنی سوچ یا جذبات کے اظہار کے لیے جو الفاظ ادا کرنا یا لکھنا چاہتا ہے تہذیب کے دائرے اْسے اس زبان یا اْن الفاظ کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو لفظ کْتے اور بھیگی بلی دونوں کا وجود لْغت میں پایا جاتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں کسی پیرائے میں اگر  بہ امر مجبوری ‘‘ کْتے سے بھیگی بلی’’ کا استعارہ استعمال کرنا پڑ جائے تو یقیناً ایک طوفان بدتمیزی کے برپا ہونے کا سو فیصد امکان پایا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا مجھ جیسے مصلحت پسندوں کو اگر ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے تو وہ یقینا کْتے کی بجائے شیر کا لفظ استعمال کرینگے لیکن داد دیجئے انگریزی ادب کو کہ جس نے میرے جیسے کئی دل جلوں کی مشکلیں کچھ اسطرح آسان کر دیں کہ نام بھی نہ بدلا مفہوم بھی واضح ہو گیا اور کسی نے بْرا بھی نہ منایا۔ انگلش کا محاورہ ہے  :
Barking dogs seldom bite.
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ راقم کو اتنی لمبی تمہید کی کیوں ضرورت پیش آئی اور راقم ان محاورہ جات کو کس زمرے میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس سے قبل کہ میں آپکے سوال کا جواب دوں، بقول میرے ہمزاد ان محاورہ جات کی بہترین عکاس اور ناقابل تردید حقیقت پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال ہے۔
ہمزاد کی اس دیدہ دلیری پر راقم نے اس سے پوچھا ایسا کیوں۔ وہ بولا ‘‘ مثال دیتے وقت اس لیئے مشکل پیش نہیں آئی کہ یہ فی زمانہ کی بات نہیں روز اول سے جب سے پاکستان کا وجود عمل میں آیا ہے ہمارے سیاستدانوں کے کردار پر ایک نظر ڈال لو، کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ صبح بڑھکیں لگا رہے ہوتے ہیں اور رات کو مذاکرات کر رہے ہوتے ہیں۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارا المیہ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے مخصوص طبقات کے درمیان اقتدار اور اختیارات کے حصول کی جنگ رہی ہے جس میں ملکی مفاد عوام کی بھلائی یا کسی خیر کے عنصر کا کوئی وجود نہی پایا جاتا۔ لہذا وہ جب چاہتے ہیں ملکی اور عوامی مفاد کو اپنی منشاء کے مطابق موم کی ناک کی طرح موڑ لیتے ہیں۔ہمزاد مزید کچھ یوں گویا ہو ا ’’  جسطرح زندگی کا کچھ پتا نہیں کہاں پر شام ہو جائے اْسی طرح یہاں کے سیاستدانوں کا کچھ پتا نہیں ہوتا کہاں پر عوامی مفاد کا نعرہ لگاتے سڑکوں پر نکل آئیں اور خدا جانے کب ذاتی مفاد میں ملکی مفاد کا ڈھونڈو رہ پیٹتے مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں اور کب ڈیل کر بیٹھیں جبکہ میرے جیسے انکی اصول پسندی، ثابت قدمی، ہمت اور استقلال کے قصیدے لکھتے نہیں تھکتے۔
گو کہ اس خاکسار نے اللہ کی مہربانی سے اپنی زندگی کی پینسٹھ بہاریں دیکھ لی ہیں لیکن کافی ریاضتوں کے باوجود ابھی شائد دانش اور حکمت کی پہلی سیڑھی پر پہلا پاؤں بھی نہیں رکھ سکا، اپنی اس محرومی کو دیکھتے ہوئے جب بھی کوئی نتائج اخذ کرنے ہوں تو اہل دانش کے اقوال کا سہارا لے لیتا ہوں اور پھر جب گھر میں ایسی ہستیاں موجود ہوں تو باہر کے دروازے کھٹکٹانے کی کیا ضرورت۔ بلاشبہ نوائے وقت کے ادارے کو میں اپنا گھر تصور کرتا ہوں اور خوش قسمتی کہ اس گھر میں ایک ایسی ہستی بھی تھی جسے لوگ امام صحافت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مْرشد مجید نظامی صاحب کہا کرتے تھے صحافت میں ہمیشہ سچ بولو اور سچ کا ساتھ دو لیکن خیال رہے کہ سچ بولتے بولتے آپ اپنے اوپر یہ چھاپ نہ لگوا لینا کہ آپ کسی خاص پارٹی، کسی مخصوص گروہ یا کسی انجینرڈ موقف کے ترجمان ہو، اسکے ساتھ انکا یہ بھی موقف ہوتا تھا کہ صحافت کرتے وقت یہ بھی احتیاط برتو کہ کہیں آپکا قلم یا زبان کسی سیاسی پارٹی کی آواز نہ بن جائے کیونکہ یہاں کی کسی سیاسی پارٹی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ کب اور کہاں ملکی اور عوامی مفاد کا نعرہ لگاتے کس کے آنگن میں اپنی چارپائی بچھا لے۔ مْرشد کا یہ موقف یقینا اْسی پاکستان کی سیاسی تاریخ کو دیکھ کر پروان چڑھا ہو گا جو میرے آج کے کالم کا مرکزی خیال ہے۔
اسی مرکزی خیال کو لیکر یہ خاکسار چند سطور اپنے شہید دوست ارشد شریف کے متعلق لکھنا چاہے گا۔ راقم کی نظر میں ارشد شریف کی ہلاکت کے  پیچھے کون سے عوامل، کون سی محرکات اور کون سے کردار کار فرما تھے ان پر بغیر کسی ثبوت اور ٹھوس شہادتوں کے کسی قسم کی قیاس آرائی یا تبصرہ نگاری سے گریز ہی صحتمند صحافت کی پکار ہے لیکن اس بات کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ ارشد شریف ایک دلیر ، نڈر، بیباک، جرأت مند اور سچ کا علمدار تھا لیکن اْس بدنصیب کی بدقسمتی کہ وہ سچ بولتے بولتے اپنے اوپر ایک مخصوص چھاپ لگوا بیٹھا۔ اس بدنصیب کو کیا پتا تھا کہ اسکی بیان کردہ سچائیوں کو لوگ اپنے  برانڈ  کا لیبل لگا کر بیچیں گے۔ مجھے یہاں اپنے مرشد کے بیان کردہ وہ الفاظ ایک دفعہ پھر یاد آ رہے ہیں کہ سچ بولتے بولتے اپنے اوپر کسی کی چھاپ نہ لگوا لینا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ارشد شریف کی شہادت کو لیکر مختلف گروہ اور پارٹیاں اپنا چورن بیچتی رہیں گی لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ارشد شریف کیلئے کیا کر سکتے ہیں۔ یہ خاکسار آج اپنے اس کالم کی وساطت سے تمام صحافتی تنظیموں اور ارباب اختیار سے اپیل کرے گا کہ قطع نظر اس بات کے کہ ایسے واقعات جن کو مخصوص لابیاں لاکھ متنازعہ بنانے کی کوشش کریں اپنے تئیں ہم کوئی ایسا میکنزم فریم کریں کہ جو صحافی بھائی ایسے حادثات کا شکار ہو جائیں انکے لواحقین کی داد رسی صرف بیانوں کی حد یا فوٹو سیشن تک محدود نہ رہے بلکہ جسطرح فوج پولیس اور دوسرے ادارہ جات مرنے والوں کے لواحقین کی مدد کرتے ہیں اسی طرح انکی مدد کی جائے۔

مزیدخبریں