اس وقت پاکستان بھر کے پنشنرز ریکارڈ توڑ مہنگائی اور جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے سے بے حد مسائل کا شکار ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اِن بوڑھے بزرگوں کے لیے موجودہ قلیل پنشن میں زندگی کی گاڑی کو کھینچنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے لیکن آج تک کسی بھی حکومت نے پنشنروں کے مسائل حل کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ حکومت ہر سال جب حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں میں جو اضافہ کرتی ہے اسی شرح سے بزرگ پنشنرز کی پنشن بڑھا کر نہ جانے کون سا ’’احسانِ عظیم‘‘ کرتی ہے کوئی ان سے پوچھے کہ حاضر سروس کو تو کئی طرح کے الائونسز اور دیگر مراعات بھی ملتی ہیں جبکہ پنشنرز کا دار و مدر صرف اور صرف اسی محدود پنشن پر ہوتا ہے پھر انہیں حاضر سروس کے برابر پنشن میں اضافے کی سہولت دینے میں کیا منطق ہے؟حالانکہ پنشنروں کو مہنگائی کے تناسب سے پنشن میں اضافے سمیت دیگر کئی مراعات مثلاً فری میڈیکل، مفت سفری سہولتیں، لائبریریوں، پبلک پارکس اور تفریحی و تاریخی مقامات میں مفت داخلے کی سہولتیں ملنی چاہئیں اسی طرح تمام وفاقی و صوبائی محکموں، خود مختار اداروں، کارپوریشنز، بنکوں کے پنشنرز سمیت صنعتی اداروں سے ریٹائر ہونے والے ای او بی آئی پنشنروں کو ہر طرح کے پراپرٹی ٹیکس، موٹر وہیکلز ٹیکس اور ٹال ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے لیکن وطن کے انتظامی، مالیاتی، تجارتی اور صنعتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے والے کل کے نوجوانوں اور آج کے بوڑھے بزرگ پنشنروں کو کون پوچھتا ہے؟ یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ اس وقت ملک میں پنشنروں کی کل تعداد دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور یہ سب ملک کا ’’قیمتی سرمایہ‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’’قیمتی ووٹر‘‘ بھی ہیں لیکن آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے انہیں لفٹ نہیں کروائی۔ آپ جمہوریت جمہوریت کی دن رات رَٹ لگانے والی سیاسی جماعتوں کے ذرا منشور پڑھ کر دیکھ لیں آپ کو بوڑھے بزرگ شہریوں اور پنشنروں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک سطربھی ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ الیکشن والے دن ان بزرگوں کے قیمتی ووٹ اپنے حق میں ڈلوانے کے لیے ان کی منتیں ترلے کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ حکمران بزرگ پنشنروں کے مسائل اور مشکلات کو اسی لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ اس بڑھاپے کی عمر میں حکومتی ایوانوں کے سامنے احتجاج کرنے کی استطاعت اور ہمت نہیں رکھتے، یہ تو احتجاج، دھرنے، بھوک ہڑتال کرنے اور پولیس کے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور موسم کی شدت برداشت کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ دوسری طرف سرکاری محکموں کے حاضر سروس ملازمین کی تنظیمیں اپنی طاقت اور وسائل کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں کئی کئی روز تک دھرنے اور احتجاج کے ذریعے اپنے مسائل حل کروا لیتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تنظیمیں بھی اپنے اپنے محکموں سے ریٹائر ہونے والے پنشنروں کے حق میں کبھی بھی آواز بلند نہیں کرتیں۔ ایسی صورتحال میں بزرگ پنشنرز کس سے داد فریاد کریں؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟
اگرچہ مختلف پنشنرز نے انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر اعلیٰ عدالتوں میں اپنے جائز حق کے حصول کے لئے مقدمات کئے ہوئے ہیں جو عرصہ دراز سے زیر التوا ہیں اگر کسی کیس کا فیصلہ بھی ہو گیا ہے تو متعلقہ انتظامیہ ریویو اپیل میں چلی گئی ہے اس طرح پنشنرز کے مسائل تقریباً 22,20 سال سے حل طلب چلے آ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ بنکوں کے ہزاروں پنشنرز اور بیوہ فیملی پنشنرز اپنے جائز حق کے حصول کا انتظار کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ بجٹ 2022-23ء پیش کرتے وقت وفاقی وزیر خزانہ نے صنعتی و کمرشل اداروں کے بوڑھے بزرگ پنشنرز کی پنشن میں اضافہ کرنا تو ایک طرف رہا ان پنشنروں کا ذکر تک کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ حکومت نے کچھ عرصہ پہلے ملک میں مزدور کی کم زکم اجرت 25000 روپے ماہوار مقرر کی تھی انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ای او بی آئی پنشنرز کی پنشن بھی مزدور کی کم از کم اجرت 25000 ماہوار کے برابر ادا کی جائے۔ ظلم یہ ہے کہ حکومت نے یکم اپریل 2022ء کو تمام پنشنروں کی پنشن میں 10 فیصد کا اعلان کیا تھا لیکن اس کا اطلاق بھی کئی سرکاری خود مختار اداروں، کارپوریشنز اور مالیاتی اداروں میں ابھی تک نہیں ہو سکا ہے جبکہ نئے وفاقی بجٹ میں پنشن میں مزید 5 فیصد اضافہ یعنی کل 15 فیصد اضافہ لاکھوں پنشنروں کو ابھی تک نہیں مل سکا ہے لیکن اس ناانصافی اور زیادتی کی طرف کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ آخر ہمارے حکمران بوڑھے بزرگ پنشنرز کے ساتھ کب تک زیادتی کرتے رہیں گے؟ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ گزشتہ 4 سالوں کے دوران ملک میں مجموعی طور پر 50 فیصد سے زائد مہنگائی ہوئی اور جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بھی 250 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔کیا اس مہنگائی کے تناسب سے پنشنرز کی پنشن میں سو فیصد اضافہ پنشنرز کا جائز حق نہیں ہے؟ عدالتِ عالیہ اور عدالت عظمیٰ کی طرف سے ریٹائر ملازمین کو گروپ انشورنس کی رقوم واپس کرنے کے احکامات جاری ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک صوبہ بلوچستان کے کسی کو کچھ نہ مل سکا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بوڑھے بزرگ پنشنروں کی پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافے میڈیکل الائونسز میں 100 فیصد اضافے، گروپ انشورنس کی رقوم کی ادائیگی، بنکوں کے پنشنرز کی پنشن میں 2000 سے اب تک کے تمام اضافہ جات شامل کر کے اس کی ادائیگی، ای او بی آئی پنشنرز کی پنشن 8500 روپے ماہوار سے بڑھا کر 25000 روپے ماہوار کر کے بوڑھے بزرگ پنشنرز کی دعائیں لے۔ حکومت یاد رکھے کہ یہ بزرگ پنشنرز کا جائز حق ہے خیرات نہیں ہے۔