”امپائر“ کی عدم رضامندی پر مزید خطرناک ہوتے عمران خان 


عمران خان صاحب اور ان کے قریبی رفقا تک مناسب رسائی کے بغیر میں ان کے سیاسی فیصلوں کی بابت محض قیاس آرائی ہی کرسکتا ہوں۔”قیاس“ عام تاثر کے برعکس کوئی منفی عمل نہیں ہے۔ تاریخی تناظر میں اس سے کام لیتے ہوئے کسی سیاسی پیش قدمی کے مستقبل کے بارے میں درست اندازے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔بنیادی ضرورت اس امرکی ہے کہ آپ کا ذہن سوال اٹھاتا رہے۔ سوال اٹھانے کی صلاحیت سے محرومی آپ کے ذہن کو مفلوج بنادیتی ہے۔
اسلام آباد کئی حوالوں سے عمران خان صاحب کا ”سومنات“ ہے۔وہ اس پر ”یلغار“ کے عادی ہیں۔ ابتدا اس ضمن میں 2014ءمیں ہوئی تھی۔ ان دنوں اپنے ”کزن“ ہوئے طاہر القادری کے حامیوں سمیت لاہور سے اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔یہاں وارد ہوجانے کے بعد انہوں نے 126دنوں تک پھیلادھرنا دئیے رکھا۔ مقصد اس دھرنے کا ”ایمپائر“ کو قائل کرنا تھا کہ وہ انگلی اٹھائے اور نواز حکومت کو سرکار چھوڑنے کو مجبور کردے۔طاقت ور ریاستی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز خیرخواہوں کی معاونت کے باوجود مگر اپنا ہدف حاصل نہ کر پائے۔میڈیا کی اکثریت اپنے مقبول ترین پروگراموں اور ان کی بدولت ملے اشتہاروں کو بھلاکر بھی انہیںکامیابی نہ دلواپائی۔دو سال گزرجانے کے بعد اپریل 2016 ءکا آغاز ہوا تو ”پانامہ دستاویز“ دھماکہ کی صورت منظر عام پر آگئیں۔ ان دستاویزات میں پاکستان ہی نہیں دنیا کے بے شمار ممالک کی طاقت ور ترین سیاسی شخصیات کی ”آف شور کمپنیوں“ کے ذریعے یورپی ممالک خاص طورپر برطانیہ میں خریدی قیمتی جائیدادوں کا ذکر ہوا۔اس تناظر میںدو سو کے قریب پاکستانیوں کا بھی نام آیا۔ مذکورہ دستاویز میں نواز شریف کو براہ راست موردالزام ٹھہرایا نہیں گیا تھا۔ ان کے خاندان کے زیر استعمال فلیٹوں کی بابت سوال اٹھے تھے۔مذکورہ سوالات کو عمران خان صاحب نے بھرپور انداز میں دہرانا شروع کردیا۔ بالآخر سپریم کورٹ ازخود نوٹس کے ذریعے تفتیشی عمل کا نگہبان ہوگیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ حالیہ تاریخ ہے۔اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔فقط اس پہلو پر نگاہ رکھنا ہی کافی ہوگا کہ سپریم کورٹ کی مداخلت نے بالآخر عمران خان صاجب کی اگست 2018ءمیں وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے کی راہ ہموار کی۔
اقتدار کے حصول کے بعد ان کی حکومت ”سیم پیج“ کی قوت سے طاقت ور سے طاقت ور ترین نظر آنا شروع ہوگئی۔عوام کے مسائل مگر اپنی جگہ برقرا ررہے۔مختلف بحرانوں نے بلکہ انہیں مزید ناامید بنادیا۔ ناامیدی کے اس موسم میں تحریک انصاف کی اپنی صفوں میں بے چینی رونما ہونا شروع ہوگئی۔ مذکورہ بے چینی مارچ 2021ءکے دوران اسلام آباد سے خالی ہوئی سینٹ کی ایک نشست پر ہوئے انتخاب کی بدولت کھل کر عیاں ہوگئی۔ یوسف رضا گیلانی کو تحریک انصاف کے مایوس ہوئے اراکین قومی اسمبلی نے حکومتی امیدوار ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں خفیہ رائے شما ری کافائدہ اٹھاتے ہوئے کامیاب کروادیا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست نے عمران خان صاحب کو چوکنا بنادیا۔ تلملاہٹ میں ریاستی اداروں پر بھی ”سازش“ میں ملوث ہونے کے شک میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی تسکین کے لئے قومی اسمبلی سے انہیں ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ دلوانے میں مناسب ”کمک“ فراہم ہوئی۔ صادق سنجرانی کو بھی سینٹ کا دوبارہ چیئرمین ”منتخب“ کروالیا گیا۔ ”سیم پیج“ خط کشیدہ کی بدولت مزید نمایاں ہوگیا۔ اس کے بعد مگر اکتوبر2021ءکا مہینہ آگیا اور ایک اہم ترین ریاستی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی میں تاخیر نے اس ”پیج“ کو غیر مو¿ثر ہوتا دکھایا۔
مختلف سیاسی جماعتوں میں بٹی اپوزیشن کے کائیاں اور اقتدار کے دیرینہ کھلاڑیوں نے ”سیم پیج“ کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گیم لگائی۔ وہ گیم بالآخر کامیاب بھی ہوگئی۔اقتدار سے فراغت کے بعد مگر عمران خان صاحب نے جارحانہ انداز میں شہر شہر منعقد ہوئے اجتماعات کے علاوہ روایتی اور سوشل میڈیا کے ہر ممکن پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے ”سائفر کہانی“ کو قابل اعتبار بنادیا۔
عمران خان صاحب کو اقتدار سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کروالینے کے بعد ان کی جگہ لینے والی حکومت کی پہلی ترجیح فوری انتخاب ہونا چاہیے تھی۔ وہ مگر ”ریاست کو دیوالیہ“ ہونے سے بچانے کی فکر میں مبتلا ہوگئی۔مذکورہ فکر سے نجات کے لئے آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے ایسے اقدامات لینے کو مجبور ہوئی جس نے پیٹرول،گیس اور بجلی کی قیمتوں کو ناقابل برداشت حد تک بڑھادیا۔ عمران حکومت کی معاشی پالیسیوں کو حکومت ان کا ذمہ دار ٹھہرانے میں قطعاََ ناکام رہی۔
مہنگائی کے عذاب کی وجہ سے لوگوں میں اُبلتے غصے کا عمران خان صاحب اور ان کی جماعت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ضمنی انتخابات کے نتائج عوام کے دلوں میں پلتی نفرت اور غصے کا واضح اظہار ہیں۔ یہ نتائج مگر موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کے کام نہیں آرہے۔ خان صاحب کو اس ہدف کے حصول کے لئے ایک بار پھر ”ایمپائر“ کی انگلی اٹھنے کا انتظار ہے۔ ”ایمپائر“ مگر رضا مند نہیں ہورہا۔ اسی باعث قائد تحریک انصاف مزید ”خطرے ناک“ ہوئے چلے جارہے ہیں۔ اسلام آباد پر ایک اور یلغار کے لئے لاہور سے روانہ ہوچکے ہیں۔
لاہور سے چلتے وقت انہوںنے 4نومبر تک اس شہر تک پہنچنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا۔لاہور سے اسلام آباد تک پہنچنے کے لئے آٹھ دن تک پھیلے سفر کی وجوہات ڈھونڈتے ہوئے میں نے قیاس کیاکہ وہ غالباََ 1993ءمیں نمودار ہوئے ”کاکڑ فارمولا“ نما ”حل“ کے طلب گار ہیں۔اس برس محترمہ بے نظیر بھٹو نواز شریف کی پہلی حکومت کو پچھاڑنے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی صورت پہنچنا چاہ رہی تھیں۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ صاحب ان دنوں آرمی چیف تھے۔مداخلت کو مجبور ہوئے۔ صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کو استعفیٰ دینے پر آمادہ کیا اور نئے انتخابات کی راہ ہموار کی۔حالات ان دنوں کئی اعتبار سے 1993ءجیسے نہیں رہے۔ نومبر2022ءمیں بلکہ ”ایمپائر“کی تعیناتی اپنے تئیں کلیدی سوال بن چکی ہے۔عمران خان صاحب اس عمل میں ”شراکت“ کے خواہاں ہیں۔موجودہ حکومت کے لئے مگر اپنا ”اختیار“ ان سے بانٹنے کا حوصلہ باقی نہیں رہا۔ معاملات لہٰذا مزید دُگرگوں ہوتے چلے جارہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن