ملک میں سیاست کے نام پر نجانے کیا ہو رہا ہے، اسے سیاست کہتے ہیں یا "سیاہ رت" کہتے فرق کرنا ذرا مشکل ہے کیونکہ سیاست دان ایک دوسرے کو داغدار کرنے کے سفر پر ہیں اور اس شدت سے ہیں کہ چاہتے ہیں یا ان کی خواہش پوری ہو اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر قیامت آئے، دنیا فنا ہو جائے، آگ لگ جائے اور کسی کے پاس کچھ نہ بچے۔ بولنے سے انسان کی حقیقت سامنے آتی ہے کم بولنا حکمت ہے لیکن جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں کم بولنا بے وقوفی یا بزدلی سمجھا جاتا ہے جب کہ بولتے رہنا اور بے تکان بولتے رہنے والے کو عقلمند اور بہادر سمجھا جاتا ہے۔ عقلمند بھی ایسے ایسے ہیں کہ ان کی گفتگو سن سن کر کان پک گئے ہیں اور ایسے لوگ ٹیلیویژن پر درس دینے آتے ہیں کہ دیکھتے ہی چینل بدلنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ عقلمند ایسے ہیں کہ اپنے محافظوں کو تنخواہوں کا طعنہ دیتے ہیں۔ یہ شہدا کے خون کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے کچھ ایسے الفاظ ادا کیے ہیں کہ جو یقینی طور پر اداروں کی توہین کے زمرے میں آتے ہیں اس سے بڑھ کر یہ شہداءکی توہین ہے۔ اگر کسی کو تنخواہوں کی ضرورت ہے تو وہ پیسے لے کر جان قربان کر دے، کون ہے جو نسل در نسل وطن کی حفاظت کے لیے جانوں کی قربانی دے رہا ہے، کون ہیں جو سخت سردی اور ناقابل برداشت گرمی میں سرحدوں پر کھڑے ہوتے ہیں، کون ہیں جو دشمنوں کے لیے سب سے پہلی دفاعی لائن کا کردار ادا کرتے ہیں، کون ہیں جو سیلاب میں، زلزلے میں، قدرتی آفت میں، تباہی میں تعمیر و ترقی کے لیے خدمات انجام دیتے ہیں، ملک دشمنوں کی آنکھیں نکالتے ہیں، مادر وطن کے دفاع کی خاطر کبھی پرچم لپٹے ہوتے ہیں تو کبھی دائمی معذوری کے ساتھ گھر واپس آتے ہیں کیا یہ سب کچھ صرف تنخواہ کی خاطر ہوتا ہے۔ یقیناً ایسا نہیں ہے یہ وہ جذبہ ہے جو شاید کسی تنخواہ سے خریدا نہیں جا سکتا۔ کاش کوئی بولنے سے پہلے سوچے، کاش کوئی مخالفت میں اس حد تک نہ جائے کہ وہ شہداءکے خاندانوں کے دلوں پر حملہ کرتا پھرے، کاش ہر وقت اقتدار کی خواہش معاملات اور حقائق پر غالب نہ رہے، کاش اپنے محافظوں کے لیے جذبات مفادات کی نذر نہ ہوں، کاش قیمتی جانیں قربان کرنے والوں کو ایسے طعنے دینے سے پہلے ہم یہ ضرور سوچیں کہ ملکی دفاع اور ہماری آزادی کو قائم رکھنے کے لیے کون قربانیاں دے رہا ہے لیکن تقریریں کرنے والے یہ نہیں سوچیں گے کیونکہ ان کے نزدیک اہمیت صرف اقتدار کی ہے۔ اقتدار بھلے کیسے بھی حاصل ہو۔ ایسے بیانات اور اس سوچ کی مذمت ہر سطح پر ہونی چاہیے۔ ایسے خیالات رکھنے والا کوئی سیاسی لیڈر اگر نرم یا خونی انقلاب کی بات کرتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے اردگرد ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ کیا کنٹینر پر دائیں بائیں دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ انقلاب لائیں گے۔ کیونکہ یہ لوگ تو گذشتہ چالیس، تیس، بیس یا دس سال سے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر انقلاب لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کوشش میں انہوں نے کئی سیاسی جماعتوں کی سیر ضرور کی لیکن انقلاب کا وعدہ وفا نہیں ہو سکا۔ جب کہیں انقلاب آنے لگتا ہے یہ اس سے بہتر انقلاب کی تلاش میں کہیں اور نکل جاتے ہیں۔ ایسے انقلاب ان آنکھوں نے بہت دیکھے ہیں۔ کوئی نیا نعرہ ہونا چاہیے، کوئی نیا لفظ ہونا چاہیے، تبدیلی اور نئے پاکستان کے بعد حقیقی آزادی کا بیانیہ بھی لگتا ہے کہ پرانا ہونے لگا ہے جو اب انقلاب کا نعرہ لگایا گیا ہے۔ خدا خیر کرے اور اس شر سے خیر برآمد ہو۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف پر بھاری ذمہ داری ہے موجودہ حالات میں انہیں ناصرف ملک کو سیاسی، معاشی عدم استحکام سے نکالنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے بھی کام کرنا ہے۔ مہنگائی حکومت کے قابو سے باہر ہے۔ یہاں سینکڑوں ، ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس گھر کا کرایہ ادا کرنے کے بعد پیسے نہیں بچتے۔ کہاں سے کھائیں، یوٹیلیٹی بلز کیسے ادا کریں، صحت کے مسائل ، بچوں کی تعلیم، والدین کی دیکھ بھال یہ سب کام ہر گذرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت اپوزیشن سے بات نہیں کرنا چاہتی نہ کرے، مظاہرین کا مطالبہ نہیں ماننا چاہتی نہ مانے لیکن عام پاکستانی کے دکھوں کا مداوا تو کرے ان کی ضروریات کو پورا کرنے اور زندگی آسان بنانے کے لیے تو اقدامات اٹھائے۔ لوگ مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئے ہیں۔ یہ حالات ذہنی بیماریوں کی وجہ بن رہے ہیں۔
اکتوبر کے مہینے میں بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا اور ماہانہ بنیادوں پر افراط زر کی شرح 26.6 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر میں افراط زر کی شرح 9.2 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔اکتوبر 2022 میں دیہاتوں میں افراط زر کی شرح 27.85 فیصد ریکارڈ کی گئی، شہروں میں افراط زر کی شرح 23.90 فیصد رہی۔ گذشتہ ماہ پیاز، ٹماٹر، پھل، سبزیاں، چائے، آٹا، چاول، دال مونگ سمیت دیگر اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف ایل پی جی دو روپے پچانوے پیسے فی کلو مہنگی ہونے سے 204 روپے 16پیسے تک پہنچ گئی ہے۔ حالیہ اضافے سے ایل پی جی کا گیارہ اعشاریہ آٹھ کلو کا گھریلو سلنڈر مجموعی طور پر چونتیس روپے اکانوے پیسے مہنگا کر دیا گیا ہے اور اب ایل پی جی کے 11.8 کلو کے گھریلو سلنڈرکی قیمت دو ہزار چار سو نو روپے سولہ پیسے مقرر کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہر چیز مہنگی ہے، بجلی، پیٹرولیم مصنوعات، ادویات، سبزیاں پھل سب کچھ مہنگا ہو رہا ہے حکومت کے پاس عوامی حمایت حاصل کرنے کا واحد راستہ عوام کی خدمت اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ جناب وزیراعظم میاں شہباز شریف قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ آسانیاں پیدا کریں۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف کے نام!!!!
Nov 02, 2022