یہ درست ہے کہ خان صاحب پاکستان کے سب سے زیادہ نفسیات سمجھنے والے اور محنتی سیاست دان ھیں، موجودہ حالات میں ان کا مقابلہ کجا پاکستانی سیاسی کھیپ میں کوئی سیاست دان ان جیسا نہیں، وہ جدید ٹیکنالوجی اور نفسیات کو سیاست میں استعمال کرنے والے پہلے پاکستانی سیاسی گرو ھیں۔ضمنی الیکشن کے بعد بعض ن لیگ کے رہنما فرما رھے تھے کہ پی ٹی آئی کو سیٹیں جیتنے کا کوئی فائدہ نہیں سب دوبارہ خالی ہوجائیں گی لیکن میرے نزدیک یہ دلیل درست نہی، کیونکہ پنجاب میں کونسی پی ٹی آئی، پنجاب تو نون لیگ کا گڑھ تھا ؟ عمران خان سیٹوں کے لئے تو الیکشن میں گیا ہی نہیں اس کو سیٹوں کی کیا ضرورت تھی وہ تو بس اپنی طاقت کا مظاہرہ دکھانا چاہتا تھا سو دکھا دیا۔ دوسری بات الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل ہی کرنا تھا تو الیکشن کمیشن کا فیصلہ تو پہلے ہی محفوظ ہوچکا تھا اسکے باوجود ضمنی الیکشن کروا کر عوام کا اتنا پیسہ کیوں برباد کروایا، اسکا جواب کون دیگا؟ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو سمجھنا چاہئے اب ڈیجیٹل دور آچکا ھے زمانہ بدل گیا ھے عوام اب صرف بیانیہ اور ووٹ ہی نہی روزانہ کی بنیاد پر رائے دہی بھی کرتی ھے جس تک ہر سیاسی پارٹی کے رہنما کی رسائی ھے، وہ پنجاب جہاں عمران خان کے دور میں بھی ہر ضمنی الیکشن پی ڈی ایم نے جیتا، جب لوگ نون لیگ کے ٹکٹ کے وعدے پر بک رھے تھے تو وہ کیسے ہار گئے؟ پی ڈی ایم جماعتوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ جو سیٹیں بقول پی ڈی ایم، ( پی ٹی آئی ) دھاندلی سے جیتی تھی اب وہ سیدھے راستے سے جیت گئی، آپ نون لیگ اور عمران خان کی آڈیو لیک والے معاملے کا تفصیلی تجزیہ کر کے دیکھ لیں عمران خان ہر آڈیو میں پروپیگنڈا کی تکنیک اور ذہن سازی پر بات کر رہا ھے لیڈران کو بریف کر رہا ھے کہ کیسے برینڈنگ کرنی ھے کیسے ذہنوں سے کھیلنا ھے اس کے برعکس نون لیگ ہر آڈیو میں رشتے داریوں کے مسائل میں پھنسی نظر آتی ھے، عمران خان کہہ رہا ھے ہمارا بیانیہ جیت گیا۔ جبکہ ہی ڈی ایم جماعتیں عوام کو بتا نہیں پا رہیں کہ عمران خان کا تو کوئی بیانیہ ھے ہی نہیں۔ خان صاحب کا آج جو بیانیہ ھے ایک ماہ بعد نہیں ہوگا یا ہو گا بھی تو اپنا موجودہ بیانیہ چھوڑ کر یا پینترا بدل کر نئی بات مارکیٹ میں لے آئے گا اور وہ بکے گا بھی، کیونکہ ( 2018 ) کے الیکشن کے بعد آج کے دن تک ڈیڑھ کروڑ نیا ووٹر رجسٹر ہوا ھے، روزانہ دس ہزار سے زائد بچے اٹھارہ سال کی عمر کے ہو جاتے ہیں نون لیگ کا ( 2018 ) میں کل ووٹ ایک کروڑ تیس لاکھ تھا مطلب انکے مجموعی ووٹ سے زیادہ نیا ووٹر سسٹم میں داخل ہو چکا ھے چونکہ اکثریت نوجوانوں کی ھے جن کو عمران خان لے اڑا، یہ وہ ووٹرز ہیں جنہوں نے پاکستانی سیاست کا سیاسی نقشہ ہی تبدیل کر دیا، جسے آج کی نئی نسل سٹون ایج کا دور کہتی ھے جو انکے تخیل سے باہر کا دور ھے، اس دور کے طرز کی سیاست سے آپ آج کے نوجوانوں کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں؟ یہ ایسی صورت حال ھے جس میں احساسات اور ذاتی رائے کو حقائق سے زیادہ اہمیت دی جاتی ھے جو بچہ ( 2000 ) میں پیدا ہوا وہ بھی اب بائیس سال کا ہوچکا ھے اور اس نے اپنی سن بلوغت سے شعوری عمر تک ساری پی ڈی ایم کی جماعتوں کے بارے میں عمران خان سے چور ڈاکو لٹیرا ہی سنا ھے اس ہسٹری کے بعد اس نئے ووٹرز تک آپ کی رسائی کیسے ممکن ہوگی ؟ پاکستان کی 63 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ھے ماہرین اسے جینریشن زیڈ کہتے ہیں یہ وہ بچے ہیں جو انٹرنیٹ کے دور میں پیدا اور جوان ہوئے اس جنریشن کے بارے میں ماہرین نفسیات کا خیال ھے کہ ان میں دانشورانہ معذوری بہت زیادہ ھے یا ان میں استدلال سوچ یا واضح فیصلہ کرنے کی قوت میں کمی ہوتی ھے، ٹک ٹاک، فیس بک، یو ٹیوب، ٹویٹر ، سنیپ چیٹ اور انسٹاگرام ان کی معلومات کا واحد ذریعہ ہیں ۔ آپ چند روز پہلے کا ( بی بی سی اردو ) پر لندن میں نواز شریف کے گھر کے سامنے شور شرابہ کرنے والے بچے کا انٹرویو پڑھیں اس میں ایک سوال تھا آپ کو نواز شریف کیوں پسند نہیں ؟ جواب تھا کیونکہ میں نے بچپن سے سنا یہ ایماندار نہیں ہیں۔ ہمارے روایتی سیاست دان جنہوں نے عمران خان کی طرح اسکے بارے میں شور نہیں مچایا مگر عمران خان نے نئی نوجوان نسل کو یہ سبق یاد کروا دیا کہ میرے علاوہ باقی سب سیاست دان چور ہیں۔ یہ کیسے اور کب عوام کو سمجھیں گے؟ کھیل تو خیر ہر شخص جیتنے کے لئے کھیلتا ھے لیکن کھیل خراب تب ہوتا ھے جب کھیل کو خراب کرنے کے لئے سازشیں کی جائیں بدقسمتی سے پاکستان میں اس طرز سیاست کی وجہ سے کھیل کو بہت نقصان پہنچا ھے، پہلے بھی امپائر کسی ایک ٹیم کی سائڈ لینے پر اعتراض ہونا کم ہی دیکھنے میں آیا ھے، اب کہا جا رہا ھے کہ امپائر نیوٹرل ہوچکا اب شطرنج کی یہ بساط کیسے بچھتی ھے؟ ویسے ہم یہاں ڈومیسٹک کھیلنے میں اتنے مصروف ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہی کہ اب انٹرنیشنل کھلاڑی بھی ہمارے خلاف میدان میں آچکے ہیں امریکی صدر جو بائیڈن کا پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے مضحکہ خیز بیان بھی منظر عام پر آچکا ھے اب پاکستان کو سوچ سمجھ کر کھیلنے کی ضرورت ھے۔ کسی بھی زاویئے سے دیکھئے آپ کو پاکستان منفرد ہی نظر آئیگا، دنیا میں جو نہی ہورہا نہیں چلتا لیکن پاکستان میں سب چلتا ھے کے نام پر چل جاتا ھے، دنیا ترقی کے ریکارڈ بنا رہی ھے ہم یہاں کرپشن اور رشوت خوری کے ریکارڈ قائم کررھے ہیں دنیا بھر میں کرپشن پر زیرو ٹالرنس ھے مگر ہم کہتے ہیں کوئی بات نہی، دنیا میں کرپشن پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں مگر ہمارے یہاں ریکارڈ ہی غائب ہوجاتا ھے، یہ بھی ممکن ھے اربوں کی منی لانڈرنگ کے الزام پر ملزم بری ہوجائے یا توشہ خانہ کے تحائف لینے پر سزا بھی مل سکتی ھے، دنیا بھر میں کرپشن نفرت کی علامت ھے لیکن ہمارے یہاں کرپشن کو سسٹم کی گریس کہا جاتا ھے اگر یہ گریس نہ ہو تو سسٹم جیم ہوجاتا ھے، دنیا میں حکومت ذمہ داری کا نام ھے مگر ہمارے یہاں حکومت الیکشن پر لگے پیسے وصول کرنا اور اپنا گھر بھرنے کا نام ھے، دنیا بھر میں اپوزیشن حکومت کو متبادل تجاویز دیتی ہیں لیکن ہمارے یہاں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں احتجاج دھرنے اور لانگ مارچ کے علاوہ کوئی کام نہی کرتیں، دنیا میں حکومتیں عوام کو سہولتیں دینے کے معاملے میں پریشان رہتی ہیں جبکہ ہمارے یہاں مشکل فیصلوں کے نام پر پیٹرول بجلی گیس ادویات اور مختلف اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑھا کر مہنگائی میں پسی عوام کو مزید غربت کے اندھیروں میں دھکیل دیا جاتا ھے، دنیا میں سیاست دانوں پر مقدمے بنتے ہیں تو وہ جیل جاتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں بیماری کے نام پر ہاسپیٹل شفٹ ہوجاتے ہیں- سوچ کا زاویہ تو ہر ایک کا جدا ہوتا ھے، ہر کسی کا فکری انداز اسکے مطالعے، مجالست اور تربیت کی مناسبت سے ہوتا ھے. غالبا یہی جداگانہ انداز فکر قدرت کی نعمت ھے اس لئے جب ہم یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ یہ شخص غلط نہیں بس اس کا انداز فکر اور زاویہ نظر ہم سے جدا ھے تو بہت سے گلے شکوے اپنے آپ دم توڑ دیتے ہیں!
کس کا بیانیہ حقائق پر مبنی؟
Nov 02, 2022