”آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں“


 سات سمندر پار ....حیدر قریشی 
hqg786@gmail.com

عندلیب سے میری کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی لیکن سوشل میڈیا پر ہم اکثر ایک دوسرے سے گفتگو کرتے رہتے ہیں۔پہلی بار جب مجھ سے رابطہ کیاتو بڑے دھماکہ خیز انداز میں میسج بھیجا۔ ان کی ڈی پی پر میں نے ان کی تصویر دیکھی تو سوچا کسی نے جان بوجھ کر عورت کے روپ میں رابطہ کیا ہے۔جب تصدیق ہو گئی کہ یہ آپ ہی ہیں تورابطہ بڑھا،شناسائی بڑھی تو معلوم ہوا کہ آپ مزاجاََ بہت خوش اخلاق ہیں ،اتنی زیادہ خوش اخلاق کہ سامنے والا اچھی خاصی خوش فہمی میں مبتلا ہو جائے۔دو تین بار ایسا ہوا کہ ایسے مردجو”گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دَم ہے“کی تصویر تھے ان کی بیویوں کو بھی غش پڑ رہے تھے۔مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ ان کی خوش اخلاقی سے شعروادب کی قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں بھی متزلزل ہو گئی تھیں۔کسریٰ کی سلطنت تو جیسے غلط فہمی کے زلزلے کی زد میں آکر اپنے ہی ملبے تلے دب گئی تھی اورہاتھ میں جنبش نہ ہونے کے باوجودخوش فہمی سے قیصر کی سلطنت بھی لرزہ براندام تھی۔ایسے کئی منظر دیکھنے کے باوجود عندلیب بدستور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرکے اچھے بھلے لوگوں کو بھی غلط فہمیوں کا شکار کرتی رہتی ہیں۔ میں بھی دوسرے لوگوں سے کچھ مختلف نہیں ہوں لیکن عندلیب نے میرے ساتھ کچھ مختلف سلوک کرکے مجھے تھوڑا سا مختلف ضرور بنا دیا ہے۔لوگ سوچیں گے کیسا مختلف سلوک؟ قصہ دراصل یوں ہوا کہ میں عندلیب کی خوبصورتی سے بے حد مرعوب ہوا تھا۔اپنی عمر اور بیماریوں سمیت مجموعی صورتِ حال کا بھی پتہ تھا۔کس برتے پر تتا پانی!.... میں نے فرار کا رستہ یوں نکالا کہ بہانے بنا بنا کرعندلیب سے جھگڑنے لگا کہ یہ خود ہی مجھ سے بیزار ہو کر چلی جائیں۔اس پر انہوں نے ہر جھگڑے میں برابر کا بلکہ برابر سے بھی زیادہ جھگڑا کرنا شروع کر دیالیکن رابطہ نہیں توڑا۔جھگڑے کے بعد جب بھی رابطہ کرتیں تو بات وہیں سے شروع کرتیں جہاں پہ ختم ہوئی تھی۔ ایک دن میں نے انہیں بتایا کہ میری تیسری بہن شادی سے پہلے کسی سے بھی اختلافی بات کی صورت میں بال کی کھال اتارنے لگتی تھی۔بات کرنے والے کی جان کو آجاتی تھی۔ہم اس پر کہا کرتے تھے کہ اس سے مت الجھیں یہ پھر ”پینڑھ پاکے “ بیٹھ جائے گی۔اور ساتھ ہی کہا کہ آپ بھی اسی کی طرح ”پینڑھ پاکے“بیٹھ جاتی ہیں ۔یہ بات سن کر بہت ہنسیں اور دیر تک ہنستی رہیں۔تب سے ہمارے جھگڑے بڑی حد تک کنٹرول میں ہیں۔ایک طرف یہ ہو رہا تھا دوسری طرف عندلیب نے ہمارے ( بہن بھائی ) کے رشتے کو تہہ در تہہ بنانا شروع کر دیا تھا۔میری کسی عادت پر کہتیں یہ میرے بابا کی عادت ہے،کبھی کوئی عادت ان کے بھائی جیسی قرار پائی۔ اس طرح میری بہت ساری عادتیں اورباتیں ان کے مختلف قریبی رشتوں سے ملنے کی خبریں آتی رہیں اور مجھے لگاکہ عندلیب تو میرے لئے رشتوں کی کاک ٹیل بن گئی ہیں۔ ایک بار عندلیب نے بتایا کہ ان کا لڑکپن اپنے نانا کے ہاں گزرا ہے اور نانا سے میری بعض عادتوں اور باتوں کے ملنے کا بتایالیکن کمال اس وقت ہوا جب پتہ چلا کہ میں شباہت میں ان کے نانا سے کافی ملتا ہوں۔پھر ایک دن تو عجیب جذباتی منظر بن گیا۔عندلیب کی امی عندلیب سے ملنے آئیں تو عندلیب نے انہیں نانا کے ذکر کے ساتھ میری ایک دو تصویریں دکھائیں۔ان کی امی کو اپنے ابا مرحوم یاد آ گئے اور آبدیدہ ہو گئیں۔میری تصویر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگیں یہ ان کے ہاتھ پر دو تِل ہیں،یہ بھی بالکل اسی طرح ابا کے ہاتھ پر تھے۔لیجئے جناب دل سے تل تک مشابہت ہو گئی۔خدا گواہ ہے مجھے یا میرے بچوں کو کبھی یہ علم ہی نہیں ہوا کہ میرے دائیں ہاتھ پر دو تِل ہیں۔سواتنے رشتے یک جا کرکے ملنے والی عندلیب کو رشتوں کی کاک ٹیل کہنا بالکل درست ہے۔باقی سارے رشتوں پر نانا کا رشتہ فوقیت رکھتا ہے، اس لحاظ سے مجھے عندلیب کے ساتھ شفقت کا سلوک کرنا چاہئے لیکن ایسا نہیں کر سکتا ۔ شفقت ان کے شوہر کا نام ہے۔عندلیب اپنے شوہر شفقت سے بہت محبت کرتی ہیں لیکن انہیں شفقت کے ساتھ چھوٹی چھوٹی شکایتیں بھی رہتی ہیں۔ نانا والی مشابہت کے بعد میں نے عندلیب سے کہا کہ اب آصپ میرے لئے 89 ہیں۔اس پر عندلیب نے کہا کہ اگلی دنیا میں 72 کی تعداد تو سننے میں آتی ہے لیکن آپ 88 کی تعداد دنیا میں ہی پوری کر چکے ہیں؟....تب میں نے وضاحت کی کہ 89 نواسی (ہندسے) کے طور پر کہا ہے۔نانا کی 89 ۔عندلیب کی امی کی کیفیت جاننے کے بعد میں نے عندلیب سے کہا کہ اپنی امی اور خالاوں سے کہہ دیں کہ جرمنی میں میرا گھر اب ان سب کا مائیکا ہے۔جب چاہیں اپنے مائیکے ملنے کے لئے ا?ٓسکتی ہیں۔اسی طرح مامووں سے بھی کہہ دیں کہ وہ بھی اب اس گھر کو باپ کا گھر سمجھیں۔ عندلیب کشمیر کے شہر باغ میں قیام پذیر ہیں،تب میں نے کہا تھا کہ عندلیب کوباغ میں ہی ہونا چاہئے تھا۔ مجھے گوجری اور ڈوگری زبانوں کا کچھ علم نہیں تھا۔عندلیب کے ذریعے ان کے بارے میں ابتدائی معلومات ملی۔مجھے ڈوگری پنجابی سے کافی قریب لگی لیکن گوجری ذرا مشکل لگی،اس میں کچھ راجستھانی اثرات محسوس ہوئے۔اسی دوران ہمارے کشمیر کے ایک دوست نبیل صاحب ایک گروپ میں عندلیب کے ساتھ مکالمہ کر رہے تھے اور انہوں نے احترام کے طور پر گوجری میںبہت زیادہ احترام کا ایک لفظ لکھا ، عندلیب نے ان کا شکریہ ادا کیا اور میں نے فوراََ لکھا کہ اتنی گوجری تو مجھے بھی سمجھ میں آ رہی ہے اور ساتھ قہقہے کے ایموجیز لگا دئیے۔ مجھے اپنے لڑکپن میں سنا ہوا ایک اردو اور کشمیری زبان کا مکس ملی نغمہ بہت پسند ہے۔مِرے وطن تری جنت میں آئیں گے اک دن۔۔یوٹیوب پر آنے کے بعد تو اپنے بہت سارے پسندیدہ نغمات کے ساتھ اس گیت کو بھی کئی بار سن چکا ہوں۔ان دنوں میں پھر بہت زیادہ سن رہا تھا جب عندلیب اور نبیل صاحب والے مکالمے کی مذکورہ بالا بات ہوئی۔تب عندلیب میرے کمنٹ کے حوالے سے ٹیلی فون پر بہت ہنسیں، تو میں نے انہیں کہا ہم کشمیری نغمے سن سن کر ”پھاوے“ ہو گئے اور آپ دونوں کشمیری آرام سے مل گئے ۔ امریکہ کے ایک اردو اخبار میں عندلیب کا تعارف شائع ہوا تھا۔اس میں چار مختلف طرز کی تصویریں بھی تھیں۔میں نے وہ صفحہ اپنے بعض احباب کو بغرض مطالعہ وملاحظہ بھیجا۔ایک دوست پروفیسر عبدالرب استاد نے لکھا کہ تصویر سے تو یہ برطانیہ کے شاہی خاندان کی لگ رہی ہیں۔میں نے یہی کمنٹس عندلیب کو بھیج دیئے ۔ جواب آیا، انہیں کہیں کہ کشمیر کے شاہی خاندان سے ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ عندلیب کشمیر کے ایک اہم سیاسی خاندان کی بیٹی ہیں۔اس خاندان کے مقتدر لوگوں کے نام گنوانے شروع کروں تو اچھا خاصا رعب پڑ سکتا ہے۔ ۔یوں مختصراََ کہہ سکتا ہوں کہ عندلیب کا خاندان یونین کونسل سے وزیرِ اعظم کے عہدے تک پہنچا ہوا ہے۔اس وقت بھی ایک وزارت اسی خاندان میں ہے۔اس لحاظ سے عندلیب بڑی پہنچی ہوئی شخصیت ہیں۔لیکن ان کا مجھ جیسے ستر سالہ بیمار و بیکار،شہر بدر اور دربدر فقیر تک پہنچ جانا ثابت کرتا ہے کہ ویسے بھی وہ سچ مچ پہنچی ہوئی شخصیت ہیں۔ عندلیب کو نچلے طبقوں کی بھلائی کے لئے فلاحی کام کرنے کا بہت شوق ہے۔مختلف دیگر پراجیکٹس کے ساتھ ان کا خانہ بدوشوں کے لئے کام خاص اہمیت کا حامل ہے۔خانہ بدوشوں کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے لئے عندلیب بڑی سنجیدگی کے ساتھ اور بڑی محنت اور لگن کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔اپنے آرام دہ گھر کو چھوڑ کر خانہ بدوشوں کے پیچھے پیچھے جانااور سفر کی صعوبتیں اٹھانا اور خانہ بدوشوں کی مشکلات دور کرناانہیں پسند ہے۔پہاڑی رستوں،خار زاروں اور دریاوں سے گزرنا عندلیب کے لئے معمول کا کام بن کر رہ گیا ہے۔شاید یہ کام کسی حد تک بین الاقوامی نہج پر بھی جانے لگا ہے۔ایسا ہو گیا تو عندلیب شاید جرمنی کے دورے پر بھیآنکلیں۔ایسا ہوا تو میں خود خاموشی سے یہاں کے خانہ بدوشوں میں جا ملوں گا۔ عندلیب کو شاعری کا شوق ہے۔اچھی بات ہے۔بعض مقامات پر ان کے ہاں بڑی خوبصورت چمک دکھائی دیتی ہے لیکن ابھی انہیں شعری ادبی تربیت کی ضرورت ہے۔یوں بھی سیکھنے کا عمل تو زندگی بھر جاری رہتاہے۔میری خواہش ہے کہ عندلیب شاعری کے شوق کو جنون میں بدل سکیں اور اس کے لئے جس ریاضت اور تپسیا کی ضرورت ہے ان سارے مقامات سے گزریں۔سوشل میڈیا کی چکا چوند میں گھر کر رہ جانے کی بجائے علمی و ادبی شان کے ساتھ آگے بڑھیں اور ایسا کام کریں کہ شعروادب کی دنیا میں ان کا نام اہمیت کا حامل ہو جائے۔خدا کرے کہ ایسا ہو جائے۔آمین

ای پیپر دی نیشن