قائد میاں محمد نواز شریف : وطن واپسی اور مفاہمتی پالیسی



 حقائق ....رفعت عباسی 
rifarabasi@gmail.com

تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف نے چار برس بعد ملک کی معاشی بدحالی کے دوران اور پرہنگامہ سیاست میں فاتحانہ واپسی کر کے قومی سیاست کا ایک اہم سنگِ میل عبور کرلیا ہے ۔ان کی واپسی ہماری سیاسی ماحول میں سول بالادستی کی کلاسک مثال بن گئی ہے ۔یہ وہی نواز شریف ہیں جنہیں سویلین بالا دستی کی آرزویں پالنے کی پاداش میں تین بار ایوانِ اقتدار سے نکالا گیا ہے عالمی اور مقامی مقتدرہ کی ایماں پہ انہیں خاندان سمیت طویل جلا وطنیوں کی کلفتوں سے دوچار کرنے کے علاوہ بغاوت اور بدعنوانیوں کے مقدمات میں الجھا کر ہمیشہ کے لیے میدان سیاست سے آو¿ٹ کرنے کی کوشش کی گئی طاقت کے مراکز سے محاز آرائی کے دوران وہ لمبی مدت تک پسپائی اور پیش قدمی کے مابین ٹھوکریں کھانے کے باوجود خاموش مزاحمت جاری رکھ کر اپنی سیاسی زندگی کو دوائم دینے میں کامیاب ہوئے یو بلا آخر حالات کے الٹ پھیر میں قوم کی اکثریت سمیت مقتدر حلقوں میں بھی انہیں ایک سچے سویلین لیڈر کے طور پر قبول کر لیا گیا۔مینارِ پاکستان میں ان کے استقبالیہ کا جلسے نے ہمیں وہ جذباتی مناظر دکھائے جو ( باراک اوباما ) کے پہلے سیاہ فام امریکی کی صدر منتخب ہونے پہ نظر آئے تھے ۔بلا شعبہ تاریخ ساز جلسے سے ان کا خطاب ایک فاتح کی حیثیت سے پر وقار اور طاقتور عوامی لیڈر کا لب و لہجہ سے ہوا تھا ۔جس میں سیاسی مخالفین کے لیے درگزر کے احساسات کے علاوہ پڑوسی ممالک کے ساتھ بقائےِ باہمی کے اصول پر دوستی سمیت ملکی مسائل کے تشخیص اور قومی وجود کو مربوط بنانے والے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی گونج سنائی دی۔ 
اگرچہ سیاسی مخالفین اور ماضی قریب کے بعض اتحادی دھیمی آواز میں ان کی وطن وآپسی کو ڈیل کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ جِن حالات میں میاں محمد نواز شریف واپس صاحب وآپس آئے ایک سنجیدہ اور مقبول لیڈر کی طرف سے مشکلات میں گرِی ریاست کو سہولت فراہم کرنے کی مسیحائی کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتا 2019 آواخر میں سات سال کی قید کے دوران انہیں طبعی بنیادوں پے زمانت دے کر ائیر ایمبولینس کے ذریعے لندن بھیجا گیا تھا ۔وہی لندن جہاں سے وہ اپنی شریکِ حیات کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ہمراہ قید کاٹنے کے لیے وطن وآپس آئے تھے ۔کیونکہ ان کے عدم موجودگی میں عدالت کی طرف سے انہیں سزا سنائی گئی تھی اور اس وقت بھی مخالفین کا خیال تھا کہ وہ گرفتاری کے خوف سے وآپس نہیں آئیں گے اور یوں ان کی مزاحمتی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے گی ۔لیکن ان کی دلیرانہ وآپسی نے مخالفین کی جنجلا ہٹ میں اضافہ کر دیا چنانچہ وطن وآپسی پے لاہور ایئرپورٹ پر انہیں عملے نے سختی سے ڈیل کیا بالکل ویسے ہی جیسے ستمبر 207 میں جلا وطنی ترک کر کے وآپس آنے پر مشرف دور میں انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ پر نامناسب سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پھر ایئرپورٹ سے ہی انہیں وآپس بھیج دیا گیا تھا۔ بلاشبہ تاریخ اس طرح جابروں کی اِن مجبوریوں کو بے نقاب کرتی ہے ماضی کے برعکس اب پورا انتظامی ڈھانچہ ان کے سامنے سر نگوں تھا اور یہ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ فاتح کی حیثیت سے وآپس لوٹے ہیں یقیناً یہ سب کچھ انہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا بلکہ نواز شریف نے اپنی خاموشی اور پروقار مزاحمت کے ذریعے طاقت کے مراکز کو مسخر کیا ہے اِس ملک میں دیگر تمام وزراںِ اعظم کی طرح نواز شریف نے بھی کبھی اپنے عہدے کی مدت پوری نہیں کی ۔بد عنوانی کے الزامات سہنے کے علاوہ کئی بار انہوں نے اپنی حکومتوں کا تختہ الٹتے دیکھا لیکن ہفتہ 21 اکتوبر کے روز سیاسی طور پر عیاں شدہ نواز شریف اپنے آبھائی شہر لاہور میں اترے تو خود نواز شریف کے سوا سب کچھ بدلا ہوا تھا 
بلا شبہ ان کے تجربات نے احساسِ ذمہ داری اور زات سے آگاہی کا شعور دینے کے علاوہ اجتماعی زندگی سے مربوط رکھنے والی فکر بھی عطا کریں گے مقبول عوامی لیڈر کے طور پر میاں محمد نواز شریف کی مقبولیت ہمارے سیاسی ڈھانچے پے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کمزور کرنے کی علامت اور سویلین بالادستی کی شروعات بن سکتی ہے
 چونکہ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی کا مطلب عوام کو جواب دہ ہونا ہے لہذا اِسی تناظر میں اپریل میں پارلیمنٹ کے اِن کیمرہ سیشن میں سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ کے دوران آرمی چیف نے کہا عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں پاک فوج ملکی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریبات میں موجودہ چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسٰی صاحب نے بھی آئین کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کرنے کے عہد کو دہرایا ماضی قریب میں عوامی مینڈیٹ کو مسخ کر کے اِس طرح کا ہائبرڈ نظام تخلیق کیا گیا اس سے نمودار ہونے والی پارلیمان کو مبینہ طور پر چند اہلکار ریگولیٹ کرتے رہے تاہم سویلین بالادستی کے علمبردار جمہوری سیاستدانوں نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پرامن سیاسی اصلاحات کی خاطر آئینی نظام کو پٹھری پر لانے کی جدوجہد جاری رکھی ۔یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے داخلی نظام میں ابھرنے والی غیر معمولی تبدیلیاں عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کا نتیجہ ہیں 
خاص طور پر افغانستان سے انخلاں کے بعد جنوبی ایشیاں پر جب امریکی گرفت کمزور ہوئی تو ہماری داخلی سیاسی نظام کو پنپنے کی سہولت ملی چنانچہ دفاعی اداروں کے مثبت تعاون کا کھلی باہوں کے ساتھ استقبال کرنا چاہئے اور ہمیں اپنے کمزور سیاستدانوں کی قربانیوں اور خاموش مزاحمت کی بھی تعریف کرنا ہوگی جنہونے قومی اداروں کے ساتھ ٹکراﺅں میں الجھے بغیر آئینی نظام کی بحالی کےلیے پر امن بقائےِ باہمی کی راہ نکالی سویلین بالادستی کے حصول کی جدوجہد میں ہمیں لیاقت علی خان محترمہ فاطمہ جناح حسین شہید سہروردی، ذولفقار علی بھٹو محترمہ بینظیر بھٹو سمیت ان تمام سیاسی کارکنوں دانشوروں ، ادیبوں ، صحافیوں اور وکلا کی قربانیوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے عوام کے حقِ حاکمیت کی جدوجہد کے دوران اپنی جانوں کے نظرانے پیش کیے ۔سویلین بلا دستی کا تصور دراصل قانون کی حکمرانی سے پھوٹتا ہے جو بِلا آخر کسی نہ کسی طور پر وسیع عوامی حمایت کی حامل لیڈرشپ میں منعکس ہوتا ہے اس سے قانون کی تدوین میں مقننہ کا کردار اہم لیکن لیکن ہماری تقدیر کے مالکوں نے نظریہِ ضرورت کی ایجاد کے ذریعے پہلے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو پاہبہ جولاں بنادیا پھر مقبول سیاسی قیادت کی کردار کشی کے اسباب مہیا کر کے قانون کی حکمرانی کے تصور کو التباسات میں الجھا دیا 
آئین سے ماورا یہ بندوبست چونکہ مغربی طاقتوں کے مفاد میں تھا اس لیے عالمی برادری مختلف طریقوں سے توسیع دے کر ہمیں اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرتی رہی 
حقیقت یہ ہے کہ سویلین بالا دستی کے ماحول میں جنگ اور قومی سلامتی کے بارے میں ہر فیصلہ منتخب حکومت کرتی ہے جو عوام کو جواب دہ ہوتی ہے کیونکہ سویلین کنٹرول اجتماعی دانشوروں پر مشتمل ایسا گداز عمل ہے جس میں ادارے کوئی بھی ایسی ذمہ داری یا فیصلہ ازِ خود نہیں لیتے جو انھیں سویلین لیڈروں کی طرف سے سونپا نہ گیا پاکستان مسلم لیگ ن زندہ باد پاکستان پائندہ باد( مضمون نگار،سئنیر نائب صدر مسلم لیگ ن ڈسٹرکٹ راولپنڈی)

قائد میاں محمد نواز شریف : وطن واپسی اور مفاہمتی پالیسی
 حقائق ....رفعت عباسی 
rifarabasi@gmail.com

تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف نے چار برس بعد ملک کی معاشی بدحالی کے دوران اور پرہنگامہ سیاست میں فاتحانہ واپسی کر کے قومی سیاست کا ایک اہم سنگِ میل عبور کرلیا ہے ۔ان کی واپسی ہماری سیاسی ماحول میں سول بالادستی کی کلاسک مثال بن گئی ہے ۔یہ وہی نواز شریف ہیں جنہیں سویلین بالا دستی کی آرزویں پالنے کی پاداش میں تین بار ایوانِ اقتدار سے نکالا گیا ہے عالمی اور مقامی مقتدرہ کی ایماں پہ انہیں خاندان سمیت طویل جلا وطنیوں کی کلفتوں سے دوچار کرنے کے علاوہ بغاوت اور بدعنوانیوں کے مقدمات میں الجھا کر ہمیشہ کے لیے میدان سیاست سے آو¿ٹ کرنے کی کوشش کی گئی طاقت کے مراکز سے محاز آرائی کے دوران وہ لمبی مدت تک پسپائی اور پیش قدمی کے مابین ٹھوکریں کھانے کے باوجود خاموش مزاحمت جاری رکھ کر اپنی سیاسی زندگی کو دوائم دینے میں کامیاب ہوئے یو بلا آخر حالات کے الٹ پھیر میں قوم کی اکثریت سمیت مقتدر حلقوں میں بھی انہیں ایک سچے سویلین لیڈر کے طور پر قبول کر لیا گیا۔مینارِ پاکستان میں ان کے استقبالیہ کا جلسے نے ہمیں وہ جذباتی مناظر دکھائے جو ( باراک اوباما ) کے پہلے سیاہ فام امریکی کی صدر منتخب ہونے پہ نظر آئے تھے ۔بلا شعبہ تاریخ ساز جلسے سے ان کا خطاب ایک فاتح کی حیثیت سے پر وقار اور طاقتور عوامی لیڈر کا لب و لہجہ سے ہوا تھا ۔جس میں سیاسی مخالفین کے لیے درگزر کے احساسات کے علاوہ پڑوسی ممالک کے ساتھ بقائےِ باہمی کے اصول پر دوستی سمیت ملکی مسائل کے تشخیص اور قومی وجود کو مربوط بنانے والے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی گونج سنائی دی۔ 
اگرچہ سیاسی مخالفین اور ماضی قریب کے بعض اتحادی دھیمی آواز میں ان کی وطن وآپسی کو ڈیل کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ جِن حالات میں میاں محمد نواز شریف واپس صاحب وآپس آئے ایک سنجیدہ اور مقبول لیڈر کی طرف سے مشکلات میں گرِی ریاست کو سہولت فراہم کرنے کی مسیحائی کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتا 2019 آواخر میں سات سال کی قید کے دوران انہیں طبعی بنیادوں پے زمانت دے کر ائیر ایمبولینس کے ذریعے لندن بھیجا گیا تھا ۔وہی لندن جہاں سے وہ اپنی شریکِ حیات کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ہمراہ قید کاٹنے کے لیے وطن وآپس آئے تھے ۔کیونکہ ان کے عدم موجودگی میں عدالت کی طرف سے انہیں سزا سنائی گئی تھی اور اس وقت بھی مخالفین کا خیال تھا کہ وہ گرفتاری کے خوف سے وآپس نہیں آئیں گے اور یوں ان کی مزاحمتی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے گی ۔لیکن ان کی دلیرانہ وآپسی نے مخالفین کی جنجلا ہٹ میں اضافہ کر دیا چنانچہ وطن وآپسی پے لاہور ایئرپورٹ پر انہیں عملے نے سختی سے ڈیل کیا بالکل ویسے ہی جیسے ستمبر 207 میں جلا وطنی ترک کر کے وآپس آنے پر مشرف دور میں انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ پر نامناسب سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پھر ایئرپورٹ سے ہی انہیں وآپس بھیج دیا گیا تھا۔ بلاشبہ تاریخ اس طرح جابروں کی اِن مجبوریوں کو بے نقاب کرتی ہے ماضی کے برعکس اب پورا انتظامی ڈھانچہ ان کے سامنے سر نگوں تھا اور یہ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ فاتح کی حیثیت سے وآپس لوٹے ہیں یقیناً یہ سب کچھ انہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا بلکہ نواز شریف نے اپنی خاموشی اور پروقار مزاحمت کے ذریعے طاقت کے مراکز کو مسخر کیا ہے اِس ملک میں دیگر تمام وزراںِ اعظم کی طرح نواز شریف نے بھی کبھی اپنے عہدے کی مدت پوری نہیں کی ۔بد عنوانی کے الزامات سہنے کے علاوہ کئی بار انہوں نے اپنی حکومتوں کا تختہ الٹتے دیکھا لیکن ہفتہ 21 اکتوبر کے روز سیاسی طور پر عیاں شدہ نواز شریف اپنے آبھائی شہر لاہور میں اترے تو خود نواز شریف کے سوا سب کچھ بدلا ہوا تھا 
بلا شبہ ان کے تجربات نے احساسِ ذمہ داری اور زات سے آگاہی کا شعور دینے کے علاوہ اجتماعی زندگی سے مربوط رکھنے والی فکر بھی عطا کریں گے مقبول عوامی لیڈر کے طور پر میاں محمد نواز شریف کی مقبولیت ہمارے سیاسی ڈھانچے پے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کمزور کرنے کی علامت اور سویلین بالادستی کی شروعات بن سکتی ہے
 چونکہ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی کا مطلب عوام کو جواب دہ ہونا ہے لہذا اِسی تناظر میں اپریل میں پارلیمنٹ کے اِن کیمرہ سیشن میں سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ کے دوران آرمی چیف نے کہا عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں پاک فوج ملکی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریبات میں موجودہ چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسٰی صاحب نے بھی آئین کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کرنے کے عہد کو دہرایا ماضی قریب میں عوامی مینڈیٹ کو مسخ کر کے اِس طرح کا ہائبرڈ نظام تخلیق کیا گیا اس سے نمودار ہونے والی پارلیمان کو مبینہ طور پر چند اہلکار ریگولیٹ کرتے رہے تاہم سویلین بالادستی کے علمبردار جمہوری سیاستدانوں نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پرامن سیاسی اصلاحات کی خاطر آئینی نظام کو پٹھری پر لانے کی جدوجہد جاری رکھی ۔یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے داخلی نظام میں ابھرنے والی غیر معمولی تبدیلیاں عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کا نتیجہ ہیں 
خاص طور پر افغانستان سے انخلاں کے بعد جنوبی ایشیاں پر جب امریکی گرفت کمزور ہوئی تو ہماری داخلی سیاسی نظام کو پنپنے کی سہولت ملی چنانچہ دفاعی اداروں کے مثبت تعاون کا کھلی باہوں کے ساتھ استقبال کرنا چاہئے اور ہمیں اپنے کمزور سیاستدانوں کی قربانیوں اور خاموش مزاحمت کی بھی تعریف کرنا ہوگی جنہونے قومی اداروں کے ساتھ ٹکراﺅں میں الجھے بغیر آئینی نظام کی بحالی کےلیے پر امن بقائےِ باہمی کی راہ نکالی سویلین بالادستی کے حصول کی جدوجہد میں ہمیں لیاقت علی خان محترمہ فاطمہ جناح حسین شہید سہروردی، ذولفقار علی بھٹو محترمہ بینظیر بھٹو سمیت ان تمام سیاسی کارکنوں دانشوروں ، ادیبوں ، صحافیوں اور وکلا کی قربانیوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے عوام کے حقِ حاکمیت کی جدوجہد کے دوران اپنی جانوں کے نظرانے پیش کیے ۔سویلین بلا دستی کا تصور دراصل قانون کی حکمرانی سے پھوٹتا ہے جو بِلا آخر کسی نہ کسی طور پر وسیع عوامی حمایت کی حامل لیڈرشپ میں منعکس ہوتا ہے اس سے قانون کی تدوین میں مقننہ کا کردار اہم لیکن لیکن ہماری تقدیر کے مالکوں نے نظریہِ ضرورت کی ایجاد کے ذریعے پہلے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو پاہبہ جولاں بنادیا پھر مقبول سیاسی قیادت کی کردار کشی کے اسباب مہیا کر کے قانون کی حکمرانی کے تصور کو التباسات میں الجھا دیا 
آئین سے ماورا یہ بندوبست چونکہ مغربی طاقتوں کے مفاد میں تھا اس لیے عالمی برادری مختلف طریقوں سے توسیع دے کر ہمیں اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرتی رہی 
حقیقت یہ ہے کہ سویلین بالا دستی کے ماحول میں جنگ اور قومی سلامتی کے بارے میں ہر فیصلہ منتخب حکومت کرتی ہے جو عوام کو جواب دہ ہوتی ہے کیونکہ سویلین کنٹرول اجتماعی دانشوروں پر مشتمل ایسا گداز عمل ہے جس میں ادارے کوئی بھی ایسی ذمہ داری یا فیصلہ ازِ خود نہیں لیتے جو انھیں سویلین لیڈروں کی طرف سے سونپا نہ گیا پاکستان مسلم لیگ ن زندہ باد پاکستان پائندہ باد( مضمون نگار،سئنیر نائب صدر مسلم لیگن ڈسٹرکٹ راولپنڈی)

ای پیپر دی نیشن