اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس میں وفاقی حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کرتے ہوئے انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن قائم کرنے کےلئے حکومت کو مہلت دیدی ہے جبکہ تحریک لبیک کی سکروٹنی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی رپورٹ مسترد کرکے نئی رپورٹ طلب کرلی ہے، عدالت نے دیگر فریقین کی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا منظور کرلی، تاہم شیخ رشید احمد کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ فیض آباد دھرنا کیس میں 6 فروری 2019 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی 9 درخواستوں پر سماعت کا آغازکیا تو چیف جسٹس نے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کا بیان حلفی پڑھا ہے؟ ،انہوں نے وزرات دفاع کے ایک افسر پر سنگین الزامات لگائے ہیں ، اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ آپ سے متعلق ہے کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے دھرناکیس میں فیصلے پر عملدرآمد کرنےکے لئے معاملے پر ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی ہے۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کس کو پیش کرے گی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو پیش کرے گی، رپورٹ پھر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس ساری مشق سے اصل چیز مسنگ ہے، یہ سب ایک آئی واش ہے، سب لوگ نظرثانی واپس لے رہے ہیں تو یہ کمیٹی کے قواعدوضوابط (ٹی او آرز )آنکھوں میں دھول کے مترادف ہے ،اس طرح تو ہر کوئی بری الزمہ ہوجائے گا ، حکومت اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ آج ضمانت دیتے ہیں کہ ملک میں جو ہو رہا ہے آئین کے مطابق ہے؟چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ حکومت معاملے کو ہینڈل کرنے کی اہل ہی نہیں ، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں اور پورا م±لک مفلوج کر دیتے ہیں، ہم جاننا چاہتے ہیں دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔سپریم کورٹ نے 2019 میں فیصلہ دیا اس پر اب تک عمل کیوں نہیں کیا گیا، ہم اس کمیٹی کی رپورٹ کسی صورت نہیں دیکھیں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ کمیٹی وفاقی حکومت نے بنائی ۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ حکومتی کمیٹی غیر قانونی ہے ، حکومتی کمیٹی کا نوٹیفیکیشن کاغذ کے ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں ،اب پاکستان آئین و قانون پر چلے گا ،پاکستان انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن یا کمیٹی کیوں تشکیل نہیں دی گئی ۔ حکومت کچھ نہیں کرنا چاہتی یہ بات ہم فیصلے میں لکھیں گے ، اگر درست کمیٹی بنانی ہے تو اس کے ٹی اور آرز میں لکھنا ہوگا کہ وہ کمیٹی کیا کرسکتی ہے ، صحیح کام کریںیا جواب دیدیں کہ ہم عدالتی احکامات پر عمل نہیں کریں گے ۔ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے حکوت کچھ نہیں کرنا چاتی تو پھر ہم خود دیکھ لیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ انہیں وقت دیا جائے تاکہ یہ پیغام حکومت تک پہنچا سکیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی ایسے کام کرے گا تو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے ۔ اس کا مطلب کہ الیکشن کمیشن اور پیمرا آزاد ہیں ملک کو ایسے نہ چلائیں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک مخصوص وقت میں ایک مخصوص واقعہ کرنے والے کون تھے ؟ کونسا قانون کہتا ہے کہ فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر ہوجائے تو فیصلے پر عمل درآمد رک جاتا ہے ؟۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کوئی کینیڈا جا کر فساد کر کے واپس پاکستان آسکتا ہے؟ ،کیا ہم کینیڈا میں جا کر ا±ن کے پورے ملک کو ڈسٹرب کر سکتے ہیں؟ کیا یہ حق صرف کینیڈا سے آنے والوں کو حاصل ہے، انہیں کون لے کر آیا تھا، کینیڈا سے سبق سیکھیں، انہوں نے ایک سکھ رہنما کے قتل پر بڑے ملک سے ٹکر لے لی،ایک صاحب کینیڈا واپس چلے گئے تو بتائیں جس کام کے لیے آئے تھے کیا وہ حل ہو گیا؟اگر انہیں پاکستانیوں کا اتنا ہی دکھ ہے تو پاکستان آکر ہمارے ساتھ رہیں بتادیں کیوں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نےریمارکس دیے کہ اسلام امن کا دین ہے، وہ اسلام کو بھی بدنام کر رہے ہیں کسی کو اس کی پرواہ نہیں،کیا حکومت نے اس شخص کے حوالے سے کینیڈا کی حکومت کو خط لکھا جو عوامی پراپرٹی کو تباہ کرکے بیرون ملک چلا گیا وہ اسلام کی بات کر رہے تھے تو کیا سب ان سے ڈر جاتے، ایک مسلمان کو ڈرنا نہیں چاہیے، فساد فی الارض کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاتا اور حکومت اس کو بالکل سنجیدہ نہیں لے رہی۔ دھرنے میں ملک کو کتنا نقصان ہوا ؟ اس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے ۔ اچھی یا بری ایک حکومت اس وقت موجودتھی ہم سب ڈر رہے ہیں کسی میں ہمت نہیں ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ستر سال سے ملک میں کیا کچھ ہورہا ہے فیض آباد دھرنا ایک لینڈ مارک فیصلہ تھا، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ میرے مطابق تو وہ ایک سادہ سا فیصلہ تھا، اس وقت اچھی یا بری جیسی بھی حکومت تھی عوام کی منتخب کردہ حکومت تھی، کوئی غلط قانون بن گیا تو سپیکر کو خط لکھ دیتے یہ آپ سے غلطی ہو گئی۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ٹی او آرز اتنے وسیع کر دیے کہ ہر کوئی بری ہو جائے گا۔ ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ کون سے مخصوص واقعے کی انکوائری کرنی ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ عدالت، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل سے خوش نہیں، آپ کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے تو کوئی پیش نہیں ہو گا، آپ ٹھیک طریقے سے کام کریں یا کہہ دیں کہ ہم نہیں کرتے، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم کام کریں گے۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے واضح کیا کہ کسی پر اثرات ہوں گے تو باقی بھی سوچیں گے کہ کچھ غلط کیا تو نتائج بھگتنا ہوں گے، انکوائری میں یہ بات بھی سامنے آنی چاہیے کہ پہلے سب نے فیصلے کے خلاف نظرثانی کیوں دائر کی؟ اور اب واپس کیوں لی جارہی ہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم کے بیان کے مطابق تو الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے آزاد نہیں تھے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کو بیان حلفی گھر جا کر دیتے؟ عدالت نے ڈی جی آپریشنز پیمرا کو روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے کالا کوٹ کیوں پہنا ہوا ہے؟ کیا آپ وکیل ہیں؟ ڈی جی آپریشنز نے جواب دیا کہ کالا رنگ روٹین میں پہنا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ پیمرا سے متعلق فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھیں، کسی کو مارنا، جلاوٓ گھیراوٓ کرنا اظہار رائے کی آزادی نہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نظر ثانی واپس لے رہے ہیں تو کیا فیصلے پر عمل درآمد ہوا؟، پیمرا نے 110 صفحات میں سے کسی ایک پیراگراف پر عمل کیا تو وہ بتا دیں۔انہوں نے چیئرمین پیمرا سے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا آپ ایک ڈمی ادارے کے سربراہ ہیں؟ ملک کا ہر ادارہ مذاق بن چکا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سلیم بیگ آپ کا نام فیض آباد دھرنا کیس میں شامل ہے، آپ نے غلط بیانی کیوں کی کہ آپ کی تعیناتی بعد میں ہوئی، کیا آپ کو فیصلہ پسند نہیں تھا، آپ فیصلے پر عمل نہیں کرتے تو توہین عدالت بھی ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ بتائیں نظرثانی درخواست کس کے کہنے پر دائر کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اللہ آپ کو لمبی عمر دے سچ بولیں، چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ ہماری غلطی تھی، نظرثانی درخواست دائر کی، پیمرا میں فیصلہ ہوا تھا نظرثانی میں جائیں گے۔دریں اثنا شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ شیخ رشید سے رابطہ نہیں ہو رہا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ میں چلے سے واپس آ گیا، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ شیخ رشید آپ سے رابطے میں نہیں تو درخواست واپس لینے کا کس نے کہا؟۔دورانِ سماعت چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن کو تحریک لبیک کے ذمہ داروں کے نام کے ساتھ ’حافظ‘ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی تشکیل دے کر عدالت کو دھوکا دینے کی کوشش کی، کیا الیکشن کمیشن ملک کے ساتھ مخلص ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ باقاعدہ سسٹم کے تحت ادارے تباہ کیے جائیں تو کوئی ملک سے کیا مخلص ہو گا، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انشااللہ شفاف انتخابات کرائیں گے جس پر چیف جسٹس نے انہیں خبردار کیا کہ موضوع کو تبدیل نہ کریں۔اس دوران پی ٹی آئی اور ایم کیوایم کی جانب سے دائر نظرثانی کی درخواستیں واپس لے لی گئیں اور مسلم لیگ ضیا الحق کے وکیل نےاپنی نظرثانی درخواست پر اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ وہ درخواست واپس نہیں لے رہے۔ وکیل نے کہاکہ درخواست گزار سابق آرمی چیف اور صدر پاکستان کے بیٹے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کہیں میں ضیاالحق کو صدر پاکستا ن نہیں کہوں گا ۔ تین بج کر پانچ منٹ پرچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا جو ایک گھنٹہ 15منٹ میں مکمل کرایا گیا عدالت نے فیصلے میں لکھاہے کہ اٹارنی جنرل نے جواب جمع کرایا ہے جس سے ظاہرہوتا ہے کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے ،اٹارنی جنرل نے مختصر التوا مانگا ہے۔ عدالت نے وزرات دفاع اورآئی بی کی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دیں۔ سپریم کورٹ نے اعجاز الحق کی حد تک نظرثانی کی درخواست نمٹادی ،۔ عدالت نے شیخ رشید احمد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے موقف طلب کیا ہے کہ شیخ رشید درخواست واپس لینے پر موقف دیں، بصورت دیگر ان کی درخواست عدم پیروی پر خارج کی جائے گی۔ دیگر امور پر حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک لبیک سے متعلق رپورٹ پیش کی، عدالت نے حکمنامے میں لکھوایا کہ یہ حیران کن ہے کہ اس کے باوجود الیکشن کمیشن کو کچھ غیر قانونی نہیں لگا، الیکشن کمیشن نے پندرہ لاکھ کی فنڈنگ کو ’پی نٹ‘ کہا، عدالت نے تحریک لبیک کے اکاونٹس کی سکروٹنی بارے الیکشن کمیشن کی رپورٹ مسترد کردی جس پرکمیشن نے معاملے کا قانون کے مطابق دوبارہ جائزہ لینے کی مہلت مانگی۔فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے تین ماہ کی مہلت مانگی جس پر اسے ایک ماہ کی مہلت دی جاتی ہے، آپ یہ سب الیکشن سے پہلے پہلے کریں۔حکمنانے میں کہا گیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے بیان حلفی جمع کرایا، بیان حلفی میں ایک انفرادی شخص اور ان کے نامعلوم ماتحت اہلکاروں پر سنگین الزامات عائد کیے ۔ حکمنامے کے مطابق چیئرمین پیمرا سلیم بیگ سے پوچھا گیا کہ نظرثانی کی درخواست کیوں دائر کی جس پر انہوں نے متضاد بیانات دیے،چیئرمین پیمرا نے عدالت کو گمراہ کرنے اور معلومات چھپانے کی کوشش کی۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت پندرہ نومبر تک ملتوی کردی ہے۔