محمد نوازشریف کی وطن واپسی 

لندن میں ”پروسیجر اور علاج“ کے سلسلہ میں چار سال گزارنے کے بعد پاکستان کے تین مرتبہ منتخب وزیراعظم محمد نوازشریف بالآخر گزشتہ دنوں بخیریت وطن واپس پہنچ گئے جہاں مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت سمیت رہنماﺅں‘ کارکنوں اور مسلم لیگ کی اتحادی جماعتوں نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔ لندن پلیٹسلیٹس علاج کروانے سے قبل ملک کی عدالت عظمیٰ انہیں Convicted قرار دے چکی تھی جس کی جیل میں وہ سزا کاٹ رہے تھے۔ وطن واپس پہنچتے ہی اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر انکی قانونی ماہرین پر مشتمل ٹیم نے سب سے پہلے انکی حفاظتی ضمانت اور انکے دیگر متعلقہ جرائم کو بغیر تاخیر سلجھاتے ہوئے بعض دستاویزات پر ان سے دستخط لئے اور یوں معمولی تاخیر کے بعد اسی چارٹرڈ طیارے میں جس پر لندن اور دبئی سے مخصوص صحافیوں‘ رہنماﺅں اور کارکنوں کی اچھی خاصی تعداد نے سفر کیا‘ میاں صاحب لاہور کیلئے روانہ ہو گئے۔ لاہور ایئرپورٹ سے ایک خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انہیں ”یادگار پاکستان“ کے گریٹر اقبال پارک لے جایا گیا جہاں مسلم لیگ (ن) نے انکی وطن واپسی کے سلسلہ میں ایک بڑے عوامی جلسے کا انعقاد کر رکھا تھا۔
میاں صاحب کے اس تاریخی استقبالیہ جلسے میں ایک یادگار لمحہ ایسا بھی آیا جب چار عدد کبوتر میاں صاحب کے ڈائس کے بالکل قریب آبیٹھے۔ ان میں سے سفید رنگ کا ایک کبوتر انکے دائیں ہاتھ پر اس وقت آبیٹھا جب قائد مسلم لیگ نے مسکراہٹ بھرے لہجے میں کبوتر کو دیکھا۔ کبوتر کی یہ مختصر سی اڑان بتا رہی تھی کہ میاں صاحب کی چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ترک کرنے پر پرندہ ہونے کے باوجود اس کبوتر اور اسکے ساتھی کبوتروں نے بھی دلی مسرت محسوس کی۔ ایسا منظر پہلی مرتبہ نہیں دیکھا گیا‘ ہماری سیاست میں ”راتوں رات“ سیاسی وفاداریاں بدلنے‘ بریانی‘ پلاﺅ کی دیگوں‘ روسٹ مرغی کی ٹانگوں اور ”ست رنگیاں چالوں“ پر عوامی ووٹ خریدنے کا یہ نسخہ اقتدار ہمارے ہاں گزشتہ 76 برس سے کامیابی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی طرح میوزک‘ پارٹی نغمے ڈی جے کا تڑکا اور پالتو پرندوں کی ذہانت سے بڑے جلسوں کو کامیاب بنانا بعض پارٹیوں نے اپنی سیاسی کمپیئن کا اب حصہ بنا رکھا ہے۔ ماضی میں سابق وزیراعظم عمران خان کے بازو پر بھی ایک ”باز“ اسی طرح آبیٹھا تھا‘ یا بٹھا دیا گیا تھا۔ میاں صاحب کے اعزاز میں رکھا مینار پاکستان کا یہ جلسہ کتنا بڑا اور کتنا مہنگا تھا‘ اس بحث میں الجھنے سے زیادہ اہم ان کا دیا 9 نکاتی وہ ایجنڈا ہے جس میں نظام عدل اصلاحات بھی شامل کی گئی ہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ 9 نکاتی اس ایجنڈے کے ثمرات عوام کب حاصل کر پائیں گے۔ جہاں تک میاں صاحب پر قائم مقدمات کا معاملہ ہے تو اس سلسلہ میں انہیں خوش قسمت اس لئے بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں ضمانت نیب کی جانب سے انکے سرنڈر ہونے کے اعلان سمیت بعض دیگر کیسز میں متوقع اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک کے تین بار منتخب وزیراعظم محمد نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اب کوئی ایسا سخت رویہ نہیں اپنائیں گے جس سے انکی سیاسی ساکھ کو پھر سے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہو۔ اسی طرح انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ کسی بھی سیاسی لیڈر یا پارٹی سے انتقام نہیں لیں گے۔ اسے اب حسن اتفاق کہہ لیں کہ قائد مسلم لیگ (ن) محمد نوازشریف کے پاکستان پہنچنے کے چند ہی روز بعد مسلم لیگ (ضیاءالحق) کے سربراہ محمد اعجازالحق لندن پہنچ گئے۔ اس سال یہ ان کا دوسرا برطانوی دورہ ہے۔ لندن آمد کی انہوں نے ٹیلی فون پر اطلاع دی۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا‘ نوازشریف بطور مریض یہاں چار برس گزارنے کے بعد اسلام آباد پہنچ گئے اور آپ چند ہی روز بعد اسلام آباد سے لندن آگئے۔ آخر اس میں راز کیا ہے؟ پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ میں ”مریض“ نہیں اور نہ ہی میرے دوبارہ برطانیہ آنے میں کوئی ”رازواز“ ہے۔ ملکی سیاسی حالات کے تناظر میں سوچا کہ بہتری اسی میں ہے کہ چند ہفتوں کیلئے holydays Sami کا سہارا لیتے ہوئے یہاں آجا?ں۔ آپ کے سوال کے اندر یہ سوال کہ خود آیا ہوں یا بھجوایا گیا ہوں؟ اعجازالحق نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ آپکی بات میں بخوبی سمجھ رہا ہوں مگر آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ اس دورہ کا بنیادی مقصد اس بار برطانیہ میں چیئرٹی بنیادوں پر فلاحی کاموں کی رفتار تیز کرنا ہے۔ والد کی شہادت کے فوراً بعد مانچسٹر‘ راچڈیل اور گلاسگو‘ سکاٹ لینڈ میں ضیاءالحق شہید فاﺅنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ ایک قطعی غیرسیاسی تنظیم ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت اور فلاحی امور سرانجام دینے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت قائم کی گئی تھی۔ افسوس! کہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی بناءپر میں اس جانب پوری توجہ نہ دے سکا۔ اب کوشش ہے کہ ضیاءالحق شہید فاﺅنڈیشن کو مزید فعال بنایا جائے۔ اس سلسلہ میں آئندہ چند روز میں سکاٹ لینڈ اور مانچسٹر کا دورہ کر رہا ہوں تاکہ تنظیم سازی اور اسکے فلاحی امور میں دلچسپی رکھنے والے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو اس میں شمولیت کی خود دعوت دوں۔ مجھے قوی امید ہے کہ آج کی ملاقات کو آپ میرے اس خیراتی پروگرام کی کامیابی تک محدود رکھیں گے۔ اعجازالحق نے اجازت چاہتے ہوئے کہا! فلسطین پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے سلسلہ میں یوم سیاہ کی تقریب کا انعقاد ہائی کمیشن لندن میں ہوا۔ وزیراعظم‘ صدر اور وزیر خارجہ کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے۔ ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیرآئینی اور ظالمانہ قوانین‘ انسانی حقوق کی پامالی اور بھارت کے گزشتہ 76 برس سے غاصبانہ قبضہ کے خلاف عالمی برادری کو اس تنازعہ کے فوری حل پر زور دیا۔ یوم سیاہ کی اس تقریب میں کشمیری رہنماﺅں‘ ارکان برطانوی پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندگان نے بھی شرکت کی اور کشمیریوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ ممتاز محقق‘ دانشور‘ سابق ڈی جی پی آر اور ”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“ کے ایک مصرعے سے عالمی شہرت حاصل کرنیوالے ہر دلعزیز شاعر شعیب بن عزیز بھی گزشتہ دنوں برطانیہ کے نجی دورے پر آئے اور اس بار اپنی نئی غزل ”مجھے اس سے کوئی خطرہ نہیں کہ میرا دوست مجھ جیسا نہیں ہے‘ یہ کس بستی میں لے آیا ہے‘ رستہ درختوں کا جہاں سایہ نہیں ہے“ ”ہوا ڈر ڈر کے چلتی ہے یہاں پر یہاں دریا ہے جو بہتا نہیں ہے“ سنا کر انتہائی خاموشی سے وطن واپس لوٹ گئے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...