یہ بات حیران کن ہے کہ پاکستان میں ملک کی سلامتی کے حوالے سے اہم قوانین پر بھی سیاست غالب آنے لگی ہے جس کی تازہ مثال دہشت گردی اور فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث سویلین افراد کےخلاف آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں سماعت کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہے۔ جس کے تحت اس حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن پر 23 اکتوبر 2023 ءکو عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ کی طرف سے آنےوالا فیصلہ سے جس میں دہشت گردی اور فوجی تنصیبات یا ملک کی سلامتی کے خلاف کام کرنے والے سویلین افراد کی ملٹری کورٹس میں سماعت کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ مطلب یہ کہ اب ملٹری کورٹس صرف آرمی پرسنل کے خلاف ٹرائلز کرسکتی ہیں۔ جبکہ 1952 ءاور 1967 ءکے ملٹری ایکٹ کے تحت ماضی میں ہزاروں سویلین کیخلاف ملٹری کورٹس کی طرف سے دیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہوچکا ہے۔یہی نہیں پاکستان میں ماضی میں آرمی ایکٹ کے تحت دیے جانے والے تمام فیصلوں کو نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی ان فیصلوں کو ڈیو پروسیس قرار دیتے ہوئے تسلیم کیا ہواہے۔
بدقسمتی سے سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیخلاف فیصلہ کرتے وقت سپریم کورٹ نے ملک کے اندر کئی دہائیوں سے جاری دہشت گردی اور پاکستان کی سلامتی پر کاری ضرب کی راہ میں پاک فوج کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے پاکستان کے عوام کو اپنی فوج سے بدزن کرنے کے لئے دیگر ہتھکنڈوں کے استعمال سے صرف نظر کرتے ہوئے اس اہم نقطے کو فراموش کر دیا کہ ملٹری کورٹس میں سماعت کا خوف ختم ہوگیا تو ملک میں سول عدالتوں کے کمزور نظام اور عرصہ دارز تک جاری رہنے والی لا حاصل سماعت کے پیش نظر دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہونگے اور وہ مزید دیدہ دلیری کے ساتھ ملک میں دہشت گردی کے فروغ کا سبب بنیں گے۔ پاک فوج دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف ملک و قوم کی سلامتی اور بقاءکیلئے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے ۔نہ ختم ہونے والی اس جنگ میں پاک فوج کے افسران و جوان ہزاروں کی تعداد میں اپنی جان کے نذرانے دے چکے ہیں۔ معروف امریکی نائن الیون دہشت گردی کے بعد امریکہ نے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر افغانستان پر یلغار کی تویہ بھارت تھا جس نے اس جنگ کو پاکستان میں دھکیل کروطنِ عزیزمیں خودکش دھماکوں اور تخریب کاریوں کا طوفان برپا کر دیا۔ پاکستان پر مسلط کی گئی یہ جنگ مختلف روپ دھارے ہوئے تھی۔ بلوچستان میں دشمن علیحدگی پسندوں کے روپ میں حملہ آور تھے۔ سندھ میں بھتہ وخری اور ٹارگٹ کلنگ روز کا معمول تھی جبکہ خیبرپختونخواہ اور پنجاب دہشت گردوں کا خصوصی ہدف تھے جس میں فرقہ واریت کے نام پر معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ خود کش دھماکے عروج پر تھے۔ حالت یہ ہوچکی تھی کہ ہماری عدلیہ کے معزز جج صاحبان دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے گھبرانے لگے تھے۔ کیونکہ فرقہ واریت کے نام پر خودکش دھماکے کرنے والوں کی طرف سے انہیں دھمکا یاجارہا تھا۔ خوف کے عالم میں عدالتیں اور کچہریاں تو کیا بچوں کے اسکولوں کے گرد خاردار تاروں کے جال دیکھ کر جنگ زدہ علاقوں کا گمان ہونے لگتا ہے۔
اس وقت وہ تمام طبقات جو آج ملٹری کورٹس کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں ان سب کو سانپ سونگھ چکا تھا صرف پاک فوج کے افسران و جوان ہی تھے جوملک دشمنوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے تھے اور دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد ان پر مقدمات چلانے کے لیے ملٹری کورٹس میں سماعت کرنے والوں کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔ تاہم اس وقت کل ملٹری کورٹس کے خلاف جب سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تو 2015میں گیارہ رکنی بینچ نے سویلین کی ملٹری کورٹ میں سماعت کو ویلیڈیٹ کیا تھا۔ اسکے بعد 2016اور 2017 میں بھی سپریم کورٹ نے ملٹری ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی توثیق کی تھی تو پھر اب اچانک ایسا کیا ہوگیا ہے کہ آرمی ایکٹ کو غیر قانونی قرار دے کر اسے غیر موثر بنانے کیلئے کوشش کی گئی ہے ؟کیا پاکستان سے دہشت گرد اپنا بوریا بستر سمیٹ کر جاچکے ہیں یا انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اب آئندہ پاکستان میں دھماکے نہیں کریں گے؟ امریکہ سمیت ارجنٹینا، ترکی ، چین ، تھائی لینڈ، انڈونیشیا ، کویت، سری لنکا، مالی ، لبنان، ملیشیا، ایران ، بھارت ، سری لنکا ، کیوبا، بحرین، چلی ، پیرو، میکسیکو، فلپائن ، شام ،عراق ، یمن ، سعودی عرب، اردن، بنگلہ دیش ، سوڈان، لیبیا، الجیریا، یونان، چلی ، پیرو ، کولمبیا، زمبابوے، گویٹے مالادرجنوں ایسے ملک جہاں ریاست پر حملہ آوروں کے خلاف مقدمات کی سماعت ملٹری کورٹس میں کی جاتی ہے ۔ مندرجہ بالا ملکوںمیںبعض ایسے بھی ہیں جہاں منشیات کا کاروبار کرنے والے گروہ جب ریاست کی بالادستی کو چیلنج کرتے ہیں اور ان کی گرفتاری پر عدالتیں مقدمات کی سماعت سے بالکل انکاری ہوجاتی ہیں تو پھر ان عناصر کے ٹرائیل ملٹری کورٹس کے سپرد کیے جاتے ہیں۔ یہاں اس نقطہ کو ضرور ذہن میں رکھیے کہ مندرجہ بالا ممالک میں سے کسی ملک کو اپنے ہمسائیوں نے کوئی خطرہ نہیں لیکن یہاں بھارت 1947سے پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے۔ جسے پاکستان میں کچھ طبقات افسانہ یا ڈرامہ قرار دے کر بھارت کی پاکستان دشمنی کو بھی پاک فوج کے ذمہ ڈالتے ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف سیاست اوراقتدار کی رسہ کشی میں ہرسیاسی جماعت اقتدار سے باہر ہونے پر فوج کو ذمہ دار گردانتی ہے۔جسے اقتدار مل جائے وہ فوج کے گن گانے لگتا ہے ۔ لیکن گزشتہ برس 9مئی کے واقعات نے ملک میں سیاسی کشیدگی کو ایک نیا رنگ دیا ہے ۔ چاہے جذبات میں آکر یا کسی کے بہکاوے پر پی ٹی آئی کے ورکروں کا فوج کی تنصیبات پر حملہ کو اگر آج سیاست کی نذر کردیا گیا تو آئندہ اس عمل نے احتجاج کے لازمی جزو کی صورت اختیار کر لینی ہے ۔ سپریم کورٹ کی طرف سے ملٹری کورٹس کے حوالے سے ہفتہ قبل آنے والا فیصلہ اگر 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو بچانے کیلئے ہے تو اسکے اثرات ان سویلین پر بھی پڑسکتے ہیںجو فوج کے مختلف اداروں میں ہزاروں کی تعداد میں خدمات سرانجام د رہے ہیں ۔ ان کو بھی شہے ملے گی کہ وہ اپنے خلاف کسی تادیبی کاروائی کا غصہ نکالنے کیلئے یہ سوچ کر مجرمانہ کاروائی کے مرتکب ہوںکہ پکڑے جانے پر وہ پاکستان کے کمزور عدالتی نظام کو بآسانی چکمہ دے لیں گے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں آئین کے تحت ریاست کے ہرادارے کا کردار متعین ہے لیکن جب مسئلہ ملک کو قوم کی سلامتی کا ہوتو اس میںپاک فوج کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ جسے محض سیاسی ضرورت کے تحت پروپیگنڈے کی بھینٹ نہیں چڑھا یا جاسکتا۔