4 سال کے بعد اس کمرے میں دوبارہ آپ سے ملاقات ہورہی ہے 90 میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنا تو صدر اسحاق خان نے ملکی بہتری کی پرواہ کیے بغیر نکال باہر کیا اور ملک پٹڑی سے اتر گیا۔ دوبارہ منتخب ہوا تو مشرف نے شب خون ماردیا اور ملک کو ایک مرتبہ پھر تنزلی کی جانب دھکیل دیا تیسری مرتبہ عوام نے پھر محبت کا اظہار کرتے ہوئے اقتدار دلایا تو ججزنے نکال دیا ۔میں اکثر جیل میں بیٹھ کر سوچتا تھا کہ ملک کے عوام کی ترقی کے بارے اقدامات کرنا ہی میرا جرم ٹھہرتا ہے تو میں یہ جرم قبر کی دیواروں تک کرتا رہوں گا۔ ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے ایک سو اسی ایچ ماڈل ٹاﺅن میں پہلی تنظیمی میٹنگ میں کیا ۔میاں نواز شریف انتقام کے جذبے کو درگور کرکے مفاہمتی ایجنڈے پر چلتے نظر آئے میاں نواز شریف کا کہنا تھا میری عمر کا وہ حصہ آ چکا ہے جس میں مجھے ریٹائرڈ لائف گزارنی چاہیے مگر ملک کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے میں کچھ ایسا کرکے جانا چاہتاہوں کہ پاکستانی عوام کٹھن مشکلات سے بھری زندگی کو خیرباد کہہ کر شاہانہ لائف سٹائل جی سکیں،بے روز گاری کا قلع قمع ہو عوام ترقی کریں ۔اس پر میاں نواز شریف نے ایک انتہائی اہم فیصلہ بھی کیا کہ پہلے مرحلے میں ٹکٹوں کی تقسیم کو منصفانہ شفاف میرٹ پر مبنی بنایا جائے۔ انہوں نے طے کیا ہے کہ ٹکٹ اپلائی کرنے والے امیدواروں کو ٹکٹ دئیے جانے کے لیے تین مختلف سروے کمپنیوں سے سرویز کروائے جائیں گے دو کمپنیز جس امیدوار کے حق میں فیصلہ دے دیں گی۔ اس امیدوار کو ٹکٹ جاری کر دیا جائے گا اگر کسی حلقے میں کوئی امیدوار بھی نہ جیت رہا ہو تو اس حلقے کے وننگ امیدوار کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دے دیا جائے گا۔ اب وہی امیدوار مسلم لیگ ن کے ٹکٹس حاصل کرسکیں گے جو عوام کے پسندیدہ ہونگے ۔یہ عمل مسلم لیگ ن میں نہ صرف نئی روح پھونک دے گا بلکہ جیت میں بھی مدد دے گا ماضی میںمسلم لیگ ن کے پرانے وراثتی امیدوار کو ہی ٹکٹ دیا جاتا تھا جس سے اس حلقے میں مسلم لیگ ن سے وابستہ افراد جدوجہد میں حصہ ہی نہیں لیتے تھے کہ کہ ہمیں کونسا ٹکٹ ملنا ہے۔ نواز شریف کی اس پالیسی سے عوام مسلم لیگ ن میں شامل بھی ہونگے بلکہ امید کی نئی لہر بھی ملک میں آئے گی ۔ماضی میں عوام میں اپنی ساکھ بنانے کے لیے تحریک انصاف نے یہ منشور دیا تھا جو انہوں نے بھارت میں تیزی سے اُبھرتی ہوئی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی سے نقل کیا مگر بعد ازاں انہوں نے کروڑوں روپے لیکر ٹکٹس بیچے مبینہ طور پرآڈیو لیکس بھی ہوئیں۔ مسلم لیگ نے اپنی پارٹی پالیسی کے تحت ایک خفیہ مانیٹرنگ ٹیم بھی تشکیل دے۔دی ہے تاکہ ٹکٹ کی تقسیم میں میرٹ کا تقدس پامال نہ ہو کیونکہ اقتدار ملنے پر پارٹی کو معیشت کی بحالی ،مہنگائی جیسے پہاڑوں سے ٹکرانا ہے۔
میاں نواز شریف کی اس پالیسی سے نوجوان طبقہ جس کا تحریک انصاف میں بہاﺅ زیادہ جبکہ مسلم لیگ ن میں انتہائی کم ہے اب یوتھ بھی ن کی طرف متوجہ ہوگی جس سے آئندہ الیکشن میں کامیابی قدم چومے گی۔ نواز شریف کا یہ فیصلہ بہت مدبرانہ دانشمندانہ ہے مگر انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی نے ہمیشہ لاہور فتح کیا ہے ایک وقت تھا مسلم لیگ ن کا لاہور قلعہ تھا اس قلعے کو فتح کرنے بارے حکمت عملی تیار کرنا تو دور کی بات کسی پارٹی نے سوچا بھی نہ تھا گر ماضی کی غلط پالیسیز ٹکٹوں کی غلط تقسیم سے یہ قلعہ ڈھیر ہوگیا نواز شریف کی شخصیت میں کرزمہ ہے وہ پبلک پلر سمجھے جاتے ہیں انکے بھائی میاں شہباز شریف گڈ گورننس پرفیکٹ ایڈمنسٹریٹر کی حامل شخصیت ہیں مریم نواز بھی ن لیگ کے جلسوں میں عوام کو کھینچ لاتی ہیں۔ایک طویل عرصے سے۔غائب حمزہ شہباز کو بھی واپس فام میں لانا پڑے گا ۔حمزہ شہباز نے پنجاب کی تنظیم میں بہت محنت کی ہے وہ پنجاب کے عوام سے رابطوں میں رہتے ہیں وجہ سے عوام جمزہ سے محبت کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ حمزہ ان کے رابطے میں آسانی سے آ جاتے ہیں لاہور کی بات کریں تو حمزہ شہباز لاہور کے دولہا کے طور پر پہچانے جاتے ہیں انکی عدم دلچسپی سے مسلم لیگ ن کو ناتلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے حمزہ شہباز کو ایکٹیو کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ لاہور کو ن کا قلعہ دوبارہ بنایا جاسکے۔ لاہور میں پرانے وہ عہدیداران جو وراثتی سیاست کی داغ بیل ڈال رہے ہیں ان کو بھی غیر محسوس طریقے سے ہٹانا ہوگا۔ وہ سیاسی ورکر جو نواز شریف کی گاڑی کے آگے دھمال ڈالتا اپنا اوڑھنا بچھونا پارٹی کو سمجھتا وہ مایوس ہو چکا ہے۔ اس کو واپس لانا انتہائی ضروری ہے ۔مشرف کی آمریت میں ن کا علم بلند کرنے والے وفادار ورکرز جنہیں ن کی حکومت آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑا وہ بیچارے اپنی محبت جدوجہد تو کرتے رہے مگر نہ کھبی ٹکٹ ملا نہ کوئی عہدہ مجھے یاد ہے۔ عمران گورائیہ کے گھر میں ہونے والے پولیس ریڈ اور وہ سڑکوں پر دربدر رہتا تھا۔ پارٹی میٹنگز کے انعقاد اور پھر اس کی خبروں کی اشاعت کے لیے ہر میڈیا ہاﺅس میں چھپ چھپا کر جانا نوشاد حمید پر شہباز شریف سیکرٹریٹ چلانے پر سڑکوں پر تشدد کیا جاتا۔ لیبر ونگ کے مشتاق شاہ شہزاد انور تنویر نثار گجر چوہدری سجاد جواد صدیقی جب کوئی میٹنگ کا انعقاد کرتے تو ذلت انکا مقدر بن جاتی ان کے گھروں میں پولیس ریڈ کرتی بچوں کوہراساں کرتی یہ کبھی پکڑے جاتے کبھی چھپ چھپا کر سڑکوں پر ذلیل ہو رہے ہوتے یوتھ ونگ کے غلام حسین شاہد سردار خالد ملک خلیل ورک خادم قصوری جلسے جلسوں کا انعقاد تو ایجنسیز سے بچ بچا کر کروا لیتے بعد ازاں کئی روز ان کو پناہ دینے والا شہر میں کوئی نہ ہوتا یوتھ ونگ کے ایک نوجوان میاں عدنان ثنا اللہ کا ذکر نہ کرنا بہت زیادتی ہوگی اس کا تعلق یتیم خانہ چوک سے ہے۔ اس نے ن لیگ کے لیے نہ صرف بہت قربانیاں دیں بلکہ مخالفین نے اس پر تشدد کیا جھوٹے مقدمات درج کروائے زمین اتنی تنگ کردی کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے چند روز قبل میاں عدنان ثنااللہ کو نواز شریف کی آمد پر استقبال کے لیے گاڑیوں کا لمبا قافلہ لیجاتے دیکھا تو سوچا یہ مخلص لوگ ابھی موجود ہیں ۔میاں عدنان ثنااللہ اور انکے والد میاں ثنااللہ شریف برادران کے دیوانے ہیں شریف برادران سے وفاداری کی بھرپور قیمت بھی چکا چکے ہیں کلچر ونگ کی صدر مسز ملک جس نے مشرف دور سے لیکر آج تک مسلم لیگ ن کے جھنڈے کو تھامے رکھا وہ دبنگ بہادر خاتون کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جس کو کینسر جیسی۔موذی بیماری نے ان گھیرا مگر مسز ملک نے حمزہ شہباز مریم نواز شہباز شریف کی کسی کال پر اپنی بیماری کا بہانہ نہیں بنایا اپنے پیسے خرچ کرکے ٹرانسپورٹ کھانے کا بندوبست کرکے خواتین کو لیکر ہر صورت پہنچتی ہیں پتا نہیں انہیں ٹکٹ یا سپیشل سیٹ ملنی ہے کہ نہیں قائدین کو چاہیے بستر مرگ پر پڑی اپنی وفادار کا حال احوال تو پوچھ لیں علامہ اقبال ٹاﺅن کے مجید عالم کی وفاداری کے قصے بھی نہیں بھلائے جاسکتے شہباز غوث خالد کھوکھر مشرف کی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے مہر راشد بھی ن کا متوالا ہے عبدالرشید سندھو بھی مشکل وقت میں مخالفین کے نشانے پر رہے اگر ایم ایس ایف کے رانا شہزاد کو بھول جاو تو یہ بھی زیادتی ہوگی اصل میں میں مشرف دور میں ن لیگ کا بیٹ رپورٹر ہوا کرتا تھا یہ چیدہ چیدہ نام جو مجھے یاد ارہے ہیں لکھ اس لیے رہا ہوں یہ ن لیگ کا سرمایہ ہیں انہوں نے بہت مصیبتیں جھیلی ہیں جیسے آج تحریک انصاف کا نام لینا جرم سمجھا جاتا ہے اس وقت اس سے زیادہ مشکل حالات تھے تحریک انصاف کے ہائی بریڈ عوام تو خاموش ہے مگر یہ لیگی خاموش نہیں ہوتے تھے یہ ن کے نام کو زندہ رکھے ہوئے تھے ان دنوں بہت سے لیڈرز بھی ایکٹو تھے مگر میں انکا نام نہیں لکھ رہا میں انکے نام لکھ رہا ہوں جو اس وقت ماریں تو کھاتے تھے۔ آس امید تھی کہ ہماری حکومت آئے گی ہمارا وقت اچھا ہو جائے گا مگر اب ان کی اس ٹوٹ رہی ہے ۔ میاں نواز شریف کو ایجنسیوں کے سروے ضرور کروانے چاہیے مگر اس سے قبل لاہور کے پرانے کارکنوں کو جاتی عمرہ بلوا کر ان کے اعزاز میں عشائیہ یا ظہرانے کا اہتمام ضرور کریں جس میں آپ شہباز شریف مریم،نواز اور حمزہ شہباز کے علاوہ کوئی لیڈر شپ نہ ہو یہ ملاقات صرف بہانہ ہے اصل میں تو یہ کارکن نئے جوش ولولہ کے ساتھ آپ کو آپ کا قلعہ واپس لیں دیں گے۔کیونکہ ان کو پیسہ نہیں عزت ہی چاہیے۔