ہاتھ کے پیدائشی نقص کی حامل مستقبل کو ٹکڑا ٹکڑا جوڑنے والی باہمت خاتون

حلیمہ پارہے ہاتھ کے نقص کے ساتھ پیدا ہوئیں اور پانچویں جماعت سے آگے تعلیم حاصل نہ کر سکیں کیوںکہ پاکستان کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں واقع ان کے دور افتادہ گاؤں میں اسکولوں کی کمی تھی۔لیکن یہ چیلنجز 30 سالہ نوجوان خاتون کو ہنر سیکھنے اور کاروباری بننے کے خواب کو حاصل کرنے سے نہ روک سکے۔انہوں نے اپنے گاؤں سومرا کالونی کی بزرگ خواتین کو اپنے اور رشتہ داروں اور ہمسایوں کے لیے کپڑے بناتے دیکھ کر دس سال کی عمر سے پہلے سلائی سیکھ لی تھی۔پارہے نے عرب نیوز کو بتایا، "پہلے تو مجھے یہ کام مشکل لگا کیونکہ میرے پاس سلائی مشین چلانے اور سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے لیے ہاتھ نہیں تھے لیکن گھر والوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور اب میں سارا کام خود کرتی ہوں۔" اس دوران وہ سلائی مشین کا پہیہ بازو سے چلاتیں اور دوسرے بازو سے سوئی کے نیچے کپڑے کے ٹکڑوں کو سلائی کے لیے آگے کی طرف دھکیلتی جاتی تھیں۔ستمبر میں انہیں یوتھ ایجوکیشن ایمپلائمنٹ ایمپاورمنٹ پروجیکٹ (نوجوان افراد کے لیے تعلیم، روزگار اور بااختیاری منصوبہ) کے ذریعے انٹرپرینیورشپ (کاراندازی) کورس کے لیے منتخب کیا گیا جو سندھ تعلیمی فاؤنڈیشن اور اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) پاکستان کا مشترکہ اقدام ہے۔ پارہے جنہوں نے مٹھی کے ضلعی ہیڈکوارٹر کا سفر کیا اور ٹریننگ میں شرکت کی، کہا کہ اس کورس نے ان کی زندگی کو "تبدیل" کر کے رکھ دیا کیونکہ وہ پہلے انٹرپرینیورشپ کی بنیادی باتوں سے بھی واقف نہیں تھیں اور اپنا کاروبار شروع کرنے سے گریزاں تھیں۔پرہے نے کہا، اساتذہ نے انہیں عوام کے سامنے بولنا سکھایا اور "بااختیاری اور خود اعتمادی کا احساس" پیدا کیا جبکہ ان کے ساتھیوں نے ان کے سلائی کے کاروبار کے لیے روابط قائم کرنے میں اپنا تعاون کیا۔

تربیت حاصل کرنے کے صرف ایک ماہ بعد انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سلائی اور چکن کاری کڑھائی سے اور فون کالز کے ذریعے قریبی دیہاتوں سے نئے گاہک بنائے اور 15,000 روپے ($54) کمائے ہیں۔ٹریننگ میں ایک راہنمائی آفیسر دیوی کھتری نے کہا کہ تھرپارکر ضلع سے تعلق رکھنے والی 28 خواتین کو پروگرام کے ایک حصے کے طور پر تربیت دی گئی جس میں پارہے نے اپنی خواہش، دلچسپی اور مہارت سے اپنے اساتذہ کو حیران کر دیا۔کھتری نے عرب نیوز کو بتایا۔ "اس [تربیت] سے پہلے حلیمہ کا کاروبار تو تھا لیکن لوگوں تک رسائی نہیں تھی۔ تربیت میں اسے کاروبار کو آگے بڑھانے کے لیے چیزیں سکھائی گئیں کہ مزید لوگوں تک کیسے پہنچنا ہے، بورڈ اور کارڈ کے ذریعے آرڈر کیسے لینا ہے۔ اس نے اسے استعمال کیا اور اب وہ کما رہی ہے۔"ایک دکان کھولنے کی امید رکھنے والی پارہے نے کہا، خاندان ہمیشہ اس کا ساتھ دیتا رہا ہے اور اب ان کا بھائی اللہ جوڑیو قریبی دیہاتوں سے آرڈر حاصل کرنے اور پہنچانے میں ان کی مدد کر رہا ہے۔ سلائی مشین ان کی والدہ رحیمہ نے خریدی تھی جو کہتی ہیں کہ ان کا خواب تھا کہ ان کی بیٹی اپنے لیے کما سکے اور مالی طور پر خود مختار ہو۔رحیمہ نے کہا، "اس نے یہ سب چیزیں اپنے شوق، دلچسپی اور لگن سے بنائیں۔ میں نے سہارا دیا اور اللہ سے دعا کی کہ وہ اس معذور بچی کے کاروبار میں برکت دے۔ میرے بعد اس کا بھائی اور دوسرے شاید اس کا ساتھ نہ دیں تو کم از کم یہ خود سے کچھ کما سکے گی۔"پارہے کی سرپرست کھتری نے مزید کہا: "ایک مقولہ ہے کہ نصیب تو ان کا بھی ہوتا ہے جن کے نہیں ہوتے۔ حلیمہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اللہ نے ہمیں دو دو ہاتھ دیئے ہیں لیکن ہم میں اتنی مہارت نہیں ہے۔ حلیمہ تھرپارکر کے لیے ایک نمونہ اور بہترین مثال ہیں۔"

ای پیپر دی نیشن